عجیب رشتے (انسیسٹ) آخری قسط

 


نادیہ: بس جلدی نکالو کیونکہ صبح دوسرے رشتے والوں نے بھی آنا ہے اور مجھے پتا ہے امی ابو نے ہاں کر دینی ہے 

حسن: تم ٹینشن نا لو تمھاری شادی تو میں اپنے دوست سے ہی کرواؤں گا

نادیہ: ویسے حسن ایک بات تو بتاؤ 

حسن: بولو باجی

نادیہ: کیا عدنان کو تم نے سب کچھ بتا دیا مطلب یہی سب کہ تم نے میرے ساتھ زنا۔۔۔۔

حسن: جی باجی اور اسے کوئی مسلہ نہیں بلکہ اب تو شادی کے بعد بھی میں اپنی باجی سے زناہ کر سکوں گا

نادیہ: شرمائی اور کچھ نا بولی مگر اندر ہی اندر نادیہ کافی خوش اور مطمئن ہو گئی 

حسن اب اپنا لن باجی کی پھدی پر مسلنے لگا جس سے نادیہ کو کافی سرور اور مزہ مل رہا تھا اور وہ ہلکی ہلکی سرور بھری سسکاریاں مارنے لگے 

حسن بھی مستی کے عالم میں مدہوش تھا کافی دیر حسن اپنا لن نادیہ کی پھدی پر مسلتا رہا سور اس کے مموں کو منہ میں لے کر چوستا اور چاٹتا رہا 

تبھی حسن مستی میں بولا

باجی کیا آج آپ کی کنواری گانڈ کو بھی اپنے لن کا مزہ دوں

یہ سن کر نادیہ کی مستی اور بڑھ گئی اور وہ مستی کہ سے انداز میں بولی اب تو اپنی رکھیل بنا جو دیا۔ہے ہے تو اپنی بہن کی گانڈ کی سیل بھی کھول دو 

حسن کا باجی نادیہ کے منہ سے ایسی گندی باتیں اسے اور مزہ اور سرور دے رہی تھی تبھی وہ اٹھا اور نادیہ کس الٹا کر کے گھوڑی سٹائل میں لیٹا دیا باجی نادیہ کی موئی گانڈ اب اس کے سامنے تھی جسے دیکھ حسن کی مستی اور لزت ڈبل ہس گئی حسن اپنے منہ سے باجی کہ گانڈ کو چومنے اور چاٹنے لگا نادیہ کی گانڈ سے آتی خوشبو حسن کو اور مست کر رہی تھی اس خوشبو کے اگے اچھے اچھے پرفیوم ہار جاتے اس خوشبو کی لزت میں حسن اس قدر مدہوش ہوا کہ باجی نادیہ کی گانڈ پر اپنا منہ رکھ کر پاگلوں کی طرح چاٹنے لگا اور خوشبو کے مزے لینے لگا وہیں نادیہ کو بھی اپنی گانڈ کے سوراخ پر گھومتی حسن کی زبان کا احساس مدہوش کر دہا تھا حسن کی گرم سانسیں نادیہ کی گاند پر لگ کر اس سرور اور مزے کو بڑھا رہی تھی حسن کافی دیر باجی نادیہ کی گانڈ چاٹتا رہا اور پھر اٹھ کر اپنا لن باجی نادیہ کے گانڈ کے سوراخ پر رگڑنے لگا حسن اور نادیہ دونو سرور کے عالم میں غوطہ خور تھے دونو کی لزت بھری ہلکی۔آوازیں کمرے کے ماحول کو اور زیادہ لزت انگیز بنا رہی تھی نادیہ کی گانڈ کا سوراخ جو پہلے سے حسن کے چاٹنے سے کافی گیلا ہو چکا تھا اب لن کے نکلتے پانی میں اور زیادہ تر ہو گیا اب حسن نے اپنے لن کا ٹوپا باجی نادیہ کی گانڈ کے سوراخ پر رکھا سور آہستہ آہستہ دبانے لگا نادیہ کو ابھی ہلکا ہلکا درد بھی ہونے لگا تھا تبھی حسن نے لن کو زور سے دبایا اور اس کے لن کا ٹوپا باجی نادیہ کی پاکیزہ گانڈ کو چیرتا اندر گھس گیا ایک درد کی لہر نادیہ کے جسم میں دوڑ گئی اور اس کی ایک ہلکی چیخ نکلی جسے حسن نے اس کے منہ پر ہاتھ رکھ کر روک لیا نادیہ کا درد کافی تھا مگر حسن رک نہیں رہا تھا اور ایک اور زوردار جھٹکا مار کر اپنا آدھا لن نادیہ کی گانڈ میں اتار دیا نادیہ درد کے مارے بلکنے لگی اور حسن سے چھڑوانے لگی مگر حسن اسے نیچے لٹاۓ اس کے اوپر چڑھ کر اپنا لن گانڈ میں ڈاکے اسے دبوچے ہوۓ تھا 

حسن اب کوئی رحم نہیں کر رہا تھا اور جھٹکے پر جھٹکے مار رہا تھا وہیں نادیہ درد سے چلاتی رہی مگر اس کی آواز بھی حسن کے منہ ہر ہاتھ رکھنے سے نکل نہیں رہی تھی کافی دیر بعد اب نادیہ کا درد مزے میں تبدیل ہونے لگا تھا حسن نے زوردار جھٹکے اب اسے لزت دے رہے تھے اور یہ لزت اس ٹائم اور بڑھ گئی جب حسن نے نادیہ کے منہ سے ہاتھ بٹا کر اپنی ایک دو انگلیاں اس کی پھدی میں ڈال دی نادیہ کی تو مزے سے جان نکل رہی تھی حسن اپنا لن باجی کے اندر باہر کر رہا تھا اور وہی اسکی انگلیاں باجی کی پھری میں الگ اپنا کام کرنے میں مشغول تھی لزت کی گہرائی میں جا کر دونو کا صبر ٹوٹ گیا اور ایک ساتھ دونو کا پانی نکلنے لگا حسن کی انگلیاں باجی کے پھدے سے نکلتے پانی سے پھر سی گئی اور حسن کے لن کا سارا پانی باجی نے اپنی گانڈ میں بھر لیا اور پھر دونو وہیں لیٹ گئے نادیہ الٹی تھی اور حسن اس کے اوپر گانڈ میں لنڈ ڈالے لیٹا اس جے چہرے کو گھورنے لگا 

کچھ دیر بعد نادیہ نے انکھ کھولی تو سائیڈ پر منہ ہونے کی وجہ سے اس کے سامنے حسن کا چہرا تھا جو اس کے اوپر لیٹا تھا اور اس کا لن ابھی تک باجی کی گانڈ میں تھا 

نادیہ: کیا دیکھ رہے ہو ایسے۔۔۔۔

حسن: باجی میں آپ کا نورانی چہرا دیکھ دہا کل تک جس کو دیکھ کر میں سوچتا تھا کہ کاش اپ کے جسم کی ایک جھلک دیکھنے جو مل جاۓ آج اسی باجی کی گانڈ اور پھدے کو چودھ چکا ہوں 

یہ سن کر نادیہ مسکرائی اور بولی شیطان بھائی نے اپنی باجی کو بھی خراب کر دیا جس پر حسن بھی مسکرانے لگا 

کچھ دیر یونہی لیٹنے کے بعد حسن کپڑے پہن کر اپنے کمرے میں جا کر سو گیا 

اگلی صبح گھر میں رشتے والے بھی آ گئے لڑکا بلکے لڑکا نہیں وہ ایک 45 سالہ ادمی تھا سر سے گنجا اور دیکھنے کے قابل نا تھا انہوں نے نادیہ کو بھی دیکھا اس کے ساتھ ایک اس جے چاچو اور اس کی بڑی بہن تھی یقیناً نادیہ کا رشتہ ان کو پسند ہی آنا تھا اور ابو نے بھی ہاں کر دی 

نادیہ اور حسن کی ایک بار پھر ٹینشن بڑھ گئی مہمان اگلی کسی تاریخ کو آنے کا بول کر چلے گئے مگر نادیہ اور حسن دونو پریشان تھے 

حسن عدنان کے پاس گیا اور اسے جا کر سب بتا دیا اور پھر دونو یہ سوچنے لگے کہ آخر کس کو رشتے کے لیے عدنان کی جگہ بھیجا جاۓ محلے کہ سب بزرگ افراد عدنان کو خاصا اچھا نہیں سمجھتے تھے 

تبھی حسن کے دماغ میں ایک خیال آیا اور وہ بولا 

حسن: کیا میں خود امی ابو سے بات کروں؟؟؟

عدنان: کیا مطلب

حسن: مطلب کہ امی ابو کو میں کہتا ہوں کہ تمھارے ساتھ باجی کا رشتہ کر دیں 

عدنان: ایسا نہ کو انکو برا لگ جاۓ 

حسن: برا کیوں لگے گا میں گھر کا بڑا بیٹا ہوں میری بات سنیں گے وہ 

عدنان: چلو جیسے تمھیں صحیح لگے 

حسن اب ٹھان چکا تھا کہ امی ابو سے وہ خود بات کرے گا اور گھر چلا گیا گھر پہنچا تو امی اور ابو صحن میں بیٹھے باتیں کر رہے تھے حسن ںے سلام کیا اور نادیہ کو اندر آنے کا کہہ کر کمرے میں چلا گیا نادیہ بھی پیچھے کمرے میں جا پہنچی

حسن اپنی بات کہتا اس سے پہلے نادیہ بولنے لگی 

نادیہ: حسن آج جو رشتے والے آۓ تھے ان کو امی ابو انکار کرنے کا سوچ رہے یہ سن کر حسن چونگ کیا اور حیرانگی سے بولا کیوں انکار کیوں کر رہے مگر ابو نے تو ہاں کر دی تھی 

نادیہ: ہاں مگر تب یہ بھی بولا تھا کہ باقی حتمی فیصلہ سوچ کر بتائیں گے

حسن: تو پھر انکار کرنے کی کیا وجہ کے 

نادیہ: پتا چلا ہے کہ اس آدمی کے تیں بچے ہیں اور وہ اسی کے پاس ہیں تو امی ابو کو کہتی ہیں کہ نادیہ کو اب جا کر وہ چھوٹے بچے سنبھالنے ہونگے اگر وہ ماں کے پاس ہوتے تب بھی ٹھیک تھا یہ سن کر حسن کی تو عید بن گئی 

حسن: شکر کے باجی اب اپنا کام بن جاۓ گا یہی موقع ہے میں ابو سے بات کرتا

نادیہ: کیا بات۔۔۔

حسن: یہی تمھارا رشتہ عدنان سے کرنے کی

نادیہ: تم پاگل تو نہیں ہو گئے ایسے وہ کیا سوچیں گے اور ان کو کسی بات کا شک ہو گیا تو 

حسن: نہیں ہوتا باجی وہ سوچ بھی نہیں سکتے کہ ہمارے درمیان کیا چل رہا اور وہ اس بات سے پریشان بھی ہیں کہ تمھاری عمر گزر رہی اب وہ کہیں بھی کر دیں گے 

نادیہ: اچھا جیسے تمھیں ٹھیک لگے مجھے تو ڈر لگ رہا 

حسن: ڈرو نہیں تم جا کر کام کرو میں تھوڑی دیر میں باہر آؤں گا اور بات کروں گا 

یہ سن کر نادیہ کمرے سے باہر نکل کر نل کے پاس بیٹھ کر برتن دھونے لگ جاتی ہے حسن کچھ دیر بعد کمرے سے نکل کر امی ابو مے ساتھ چارپائی پر جا بیٹھتا کے اب اسے سمجھ نہیں ا رہی ہوتی کے وہ بات کیسے شروع کرے تبھی حسن کہتا ہے 

حسن: ابو کیا سوچا آج رشتہ جو آیا 

ابو:( پریشانی میں )بس بیٹا سوچ رہے 

امی: بیٹا اس کے تین چھوٹے بچے ہیں نادیہ ان کو کیسے سمبھالے گی 

حسن: ہاں امی یہ بات تو ہے تو پھر انکار کر دو گے کیا

ابو: سوچ دہے بیٹا کیا کریں اب نادیہ کی عمر بھی نکلی جا رہی ایک ایک دن اب بھاری کے اور اب رشتے تو ایسے ہی آئیں گے جو عمر ہو گئی اس کی

حسن: ابو پریشان نہ ہوں کوئی نا کوئی حل نکل آۓ گا 

ابو: تمھاری کیا راۓ ہے حسن میں تو تمھاری ماں تو کہہ رہا کہ ہاں مر دیتے ہیں سنبھال لے گی نادیہ ورنہ اب عمر بھی نکلتی جا رہی 

حسن: ابو میں بھی ویسے اس رشتے کے حق میں نہیں ہوں 

ابو: ہاں تم بھی اب ماں کے چمچے بن جاؤ پھر ڈھونڈ لاؤ نا کوئی اچھا شہزادہ جو اس عمر کی لڑکی سے شادی کرے 

امی: اجی آپ تو غصہ ہی کرنا بس جو بھی ہے اپنی بیٹی ہے ایسے بنا دیکھے بھی تو کہیں نہیں دے سکتے کوئی بھیڑ بکری تھوڑی ہے

حسن: امی اب آپ لوگ لڑو نہیں ۔۔۔میری نظر میں ایک رشتہ ہے اگر آپ لوگ کہو تو وہاں کر دو

ابو اور امی دونو کافی چونک کر بولے کونسا رشتہ بیٹا کہاں کا ہے۔۔۔۔

حسن: عدنان 

آبو: کون عدنان۔۔۔

حسن: ابو اپنے محلے کا لڑکا عدنان حاجی عالم کا بیٹا جس کا ہمارے ساتھ والا کھیت بھی ہے 

ابو : وہ آوارہ تمھارا دماغ تو خراب نہیں ہو گیا محلے میں کوئی بھی شریف انسان اس کا نام تک نہیں لیتا اس کا کوئی کام سیدھا نہیں ہے 

امی: وہ تو انتہائی برا انسان ہے میں تو اپنی بیٹی اس کے گلے نہیں ڈالنے والی پہلی والی کو بھی اس نے طلاق دے دی تھی کتنی اچھی لڑکی تھی

حسن سمجھ گیا کہ ماحول اب گرم ہو رہا ہے اور تبھی بولا

حسن: امی لوگوں کی باتیں ہوتی سب وہ میرا دوست ہے میں جانتا ہوں اسے آپ جو اسے برا کہہ رہے کبھی اپ کو اس نے کبھ ایسا غلط کیا یا کوئی غلط کام کرتے دیکھا ہو آپ نے اسے اکیلا ہے بچارا اور خدا جانے اس نے کیوں پہلی بیوی کو طلاق دی اب ایک وجہ سے آپ اسے بلکل برا مت بناؤ ورنہ آج بھی تو جو رشتہ لے کر آۓ وہ بھی تو طلاق دے چکا اپنی بیوی کو 

حسن کے امی اور ابو کو حسن کی بات کچھ دل کو لگی 

ابو: مگر پھر بھی بیٹا دیکھنا پڑتا محلے میں رہ کر سب کچھ دیکھ بھال کر کرنا ہوتا 

حسن: ابو محلے کی بات نہ کرو آپ اج تک محلے والوں نے کونسا اچھا کیا ہمارے ساتھ اگر اتنے اچھے ہوتے تو تب آتے نا کوئی اچھا رشتہ کے کر اتے تب تو کسی نے کوئی آج تک ساتھ نہیں دیا کسی نے پوچھا تک نہیں اب ہمارے گھر کا مسلہ ہے ہماری مرضی ہم جو کریں کسی کا کیا لینا دینا 

امی اور ابو اب حسن کے جال میں پھنس چکے تھے اور حسن مزید پھنساتے ہوۓ بولا 

دوسرا امی کھاتا پیتا لڑکا ہے کام کاج بھی کرتا ہے گھر گاڑی اپنی زمینیں سب ہے اس کے پاس سب سے بڑی بات دو گھر چھوڑ کر اس کا گھر ہے نادیہ بھی یہی رہے گے کہیں دور بھی نہیں ہو گی 

امی اور ابو اب سوچ میں پڑھ گئے تبھی امی بولی

امی: پر بیٹا تمھیں کس نے کہا کہ رشتے کا اس نے خود مانگا کیا۔۔۔۔۔

حسن: نہیں امی اس دن ہم بیٹھے تھے تو اس نے ویسے بات کی کہ اب کوئی رشتہ ڈھونڈ رہا شادی کرنے کے لیے کیونکہ گھر بھی اکیلا اس سے کہاں سنبھالا جاتا اور دوسرا بچارا اکیلا ہے تبھی مجھے خیال آیا کہ اپنی باجی نادیہ کا رشتہ وہاں ہو جاۓ تو ہمیشہ خوش رہے گی 

ابو: چلو وہ تو صحیح ہے مگر جب تک وہ خود بات نہ کریں ہم انہیں کیسے کہیں ہم بیٹی والے ہیں اچھا نہیں لگتا 

حسن: ابو وہ سب پرانی باتیں ہو چکی ہیں اگر آپ اجازت دیں تو میں اس سے بات کر لوں گا اور اشاروں میں سمجھا دوں گا بات وہ باہر نہیں کرے گا 

یہ سن کر امی ابو سوچ میں پڑ گئے اور پھر بولے ٹھیک ہے کر لو تم بات ہم ابھی یہاں انکار نہیں کرتے دیکھو وہ کیا کرتے

حسن یہ سن کر اندر ہی اندر خوشی کہ مارے جھومنے لگا وہیں نادیہ جو کہ برتن دھونے کے بہانے سب باتیں سن رہی تھی اس کا دل بھی مچلنے لگا 

امی: میرا بیٹا بھی اب بڑا ہو گیا کے(اور پیار سے حسن کے ماتھے پر چوما)

ابو بھی اب تھوڑے خوش اور مطمئن تھے 

اسی دن حسن نے جا کر عدنان کو سب بتا دیا عدنان بھی خاصا خوش ہو گیا اور حسن کو باہوں میں لے کر چومنے لگا حسن بھی خاصا خوش تھا اور وہ بھی عدنان کو چومے جا رہا تھا حسن عدنان کی سائیڈ پر لیٹا اس کے بازو پر سر رکھے پڑا تھا تبھی عدنان بولا ویسے حسن نادیہ کیسی ہے 

حسن: اچھی ہیں کیا تم نے نہیں دیکھی ہوئی

عدنان: یار کئی سال پہلے ایک بار دیکھا تھا پر ابھی تو وہ حجاب کرتی ہیں تو کبھی نہیں دیکھا 

حسن: ہاۓ لگتا ہے باجی کو دیکھنے کا دل کر دہا 

یہ سن کر عدنان مسکرا دیا اور بولا 

عدنان: اب تو میرا حق جو ہے تم پر بھی اور تمھاری باجی پر بھی تو دیکھنا تو بنتا ہے حسن بھی مسکرا اٹھا اور پھر اپنا موبائل کھول کر باجی کی تصویر عدنان کو دیکھائی 

عدنان تصویر تو دیکھتے ہی بولا افففف یار آج پتا چلا کہ تم کیوں بہن چود بنے جس پر حسن ہنستے ہوۓ بولا پھر دیکھ لو میرا کیا قصور تھا 

حسن: ویسے کیسی لگی میری باجی تمھیں

عدنان: سچ بتاؤں تو یار بہت پیاری ہیں ویسے مجھے لڑکیوں کا زیادہ شوق تو نہیں پر تمھاری باجی تھوڑی میرے ٹائپ کی لگ رہی مطلب بھرا جسم انداز شریفانہ اور اندر سے دل پورا بیمان پر جو بھی ہو تم مجھے زیادہ پیارے لگتے ہو

حسن یہ سن کر مسکرا اٹھا اور بولا ابھی کہاں جب ملے تو تب ان کے دیوانے ہو جاؤ گے 

عدنان: اچھا تو پھر کب ملوا رہے ہو اپنی باجی سے 

حسن: ہنستے ہوۓ ابھی کہاں ابھی پہلے میرے گھر کل آؤ ابو سے ملنے پھر اگلا سوچیں گے 

عدنان: ہاہاہا ٹھیک ہے کل میں آؤں گا ویسے ایک بات پوچھو تمھاری اجی کے بارے میں نے جو بولا تمھیں برا تو نہیں لگا  

حسن: نہیں نہیں بلکے سچ بتاؤں تو مجھے مزہ آ رہا ہے اور یہ سوچ کر کہ باجی تمھاری افففف جس پر دونو ہنس پڑے

حسں اور عدنان اب ایک دوسرے کو چومنے لگے اور ایک دوسرے کے کپڑے اتار کر ننگا ہو گئے 

عدنان نے حسن کو گھوڑی بنایا اور اپنا لن حسن کی گانڈ میں گھسیڑ کر اسے جھٹکے لگانے لگا حسن بھی مستی میں مگن گانڈ مرواۓ جا رہا تھا اور پھر یہ چدائی ختم ہوئی تو حسں گھر کو چل دیا 

اگلے دن عدنان حسن کے امی ابو سے ملنے پہنچ گیا بات وغیرہ ہوئی اور امی ابو بھی مان گئے حسن نادیہ اور حسن سب خوش تھے شادی کی تاریخ دوماہ بعد کی طے ہوئی 

ایک دن حسن عدنان بیٹھے باتیں کر رہے تھے

عدنان: حسن کل شہر گھومنے چلیں 

حسن: کیوں کوئی کام ہے شہر؟

عدنان: نہیں ویسے ہی اب تم میرے سالے بن گئے ہو تو اس خوشی میں تمھیں ٹریٹ دوں گا 

یہ سن کر حسن کے دماغ میں ایک خیال آیا اور وہ بولا 

حسن: کیا باجی کو بھی ساتھ لے آوں

عدنان: وہ کیسے آئیں گی 

حسن: وہ میں کر لوں گا اگر تمھیں پرابلم نہ ہو تو 

عدنان: مجھے کیوں پلابلم ہو گی مجھے تو الٹا مزہ آۓ گا 

حسن ٹھیک ہے پھر میں فون پر تمھیں بتا دوں گا پلان 

حسن گھر آیا اور نادیہ سے بات کی کہ عدنان کے ساتھ کل گھومنے چلتے ہیں اسی بہانے تم عدنان سے مل لینا 

نادیہ کا تو بہت پہلے سے دل تھا مگر حسں کے ساتھ جسمانی تعلقات بنا لینے کے باوجود بھی نادیہ شرماتی تھی کہ کہیں نادیہ کہ دل کی گندی اور آزاد باتیں حسن کو بری نا لگیں اور ابھی بھی وہ اپنی شرم اور ایک نیک شریف لڑکی ہونے کا ڈھونگ نچاتے بولی نہیں میں کیسے آؤں اچھا نہیں لگے گا 

حسن : باجی کیوں اچھا نہیں لگے گا بس آپ نے آنا ہے 

نادیہ: مگر حسن امی ابو کو کیا کہیں گے

حسن: میں بات کر لوں گا ان کو نہیں بتائیں گے کہ عدنان کے ساتھ جا رہے بس یہ کہیں گے کہ شاپنگ کرنے جا رہے 

نادیہ جو اندر ہی اندر عدنان سے ملنے کو تڑپ رہی تھی بولی اوکے 

شام کو حسن نے کھانا کھاتے امی ابو سے بات کی کہ وہ نادیہ کو شاپنگ کروانے لے کے جانا چاہتا ہے اور ظاہر سی بات تھی وہ لوگ بھی مان گئے 

اگلی صبح نادیہ اور عدنان تیار ہو کر گاؤں سے باہر روڈ پر جا پہنچے تھوڑی دیر بعد عدنان بھی گاڑی لے کر پہنچ گیا اور دونو گاڑی میں بیٹھ کر شہر کی طرف چل دیے 

نادیہ کے گھر کا ماحول مزہبی اور سخت تھا یہی وجہ تھی کہ وہ کبھی گھرسے نکل ہی نہیں پائی اور شہر تو اسے بہت کم جانا ہوا گاڑی میں بیٹھتے ہی عدنان نے سلام کیا جس کا جواب نادیہ نے ہلکی آواز میں دیا 

سارے راستے حسن اور عدنان نارمل باتیں کرتے رہے اور نادیہ سارا صفر انجوائے کرتی رہی 

شہر پہنچ کر عدنان نے ایک خوبصورت سے پارک کے سامنے گاڑی روکی اور تینوں پارک میں جا بیٹھے 

حسن اور عدنان کی باتیں جاری تھیں مگر نادیہ بلکل خاموش تھی

حسن: باجی آپ بھی کچھ بولو

نادیہ: شرماتے ہوۓ میں ۔۔۔۔۔میں کیا بولوحسن: باجی عدنان سے بات کریں نا کوئی بات پوچھنی ہو یا کرنی ہو تو

نادیہ کافی شرمندہ سی ہو رہی تھی حالانکہ مزہ تو اسے کافی ا رہا تھا ایسے گھومنے اور حسن کے دوست سے ملنے کا مگر اس کے اندر ابھی شرم تھی

حسن سمجھ گیا اور بولا اچھا تم دونو بیٹھو میں تھوڑا گھوم کر آتا ہوں تب تک تم لوگ باتیں کرو اور اٹھ کر جانے لگا

حسن کے جانے کے بعد نادیہ شرم کے مارے منہ جھاۓ عدنان سے تھوڑا دور بیٹھی تھی عدنان کا بھی پہلی بار تھا ایسے کسی نئی لڑکی سے ملنا اسے بھی سمجھ نہیں ا رہا تھا کہ وہ کیا بات کرے اور کیا نہیں

عدنان: کیسی ہیں آپ؟؟...

نادیہ: میں ٹھیک ہوں۔۔۔۔۔۔۔۔آپ ۔۔۔۔آپ کیسے ہیں

عدنان: بلکل ٹھیک۔۔۔

دو باتیں کرنے کے بعد پھر دونو کی بولتی بند ہو چکی تھی

عدنان: آپ کا بھائی بہت اچھا ہے میرا سب سے بیسٹ فرینڈ ہے

نادیہ: جی حسن نے بھی بتایا تھا آپ کا

عدنان: اچھا کیا بتایا اس نے۔۔

نادیہ: یہی کہ آپ اس کے اچھے دوست ہیں

عدنان: اچھا میں ڈر گیا کہ کہیں اور کچھ تو نہیں بتا دیا اور ہنسنے لگا عدنان جانتا تھا کہ حسن نے نادیہ کو ان کے بیچ سیکس وغیرہ سب کے بارے بتایا ہوا ہے مگر وہ جان بوجھ کر بات کرنے کا بہانا ڈھونڈ رہا تھا

نادیہ بھی عدنان کی بات پر مسکرا اٹھی

عدنان: ویسے اپ بھی حسن کے جیسے پیاری ہیں

نادیہ یہ سن کر شرما اٹھی۔۔۔۔ایسے پہلی بار وہ کسی غیر مرد کے ساتھ باہر آئی تھی اور اب اسے باتیں بھی کر رہی تھی نادیہ نے بس شکریہ بولا جس پر عدنان ہنستے ہوۓ بولا میں آپ کو کیسا لگا

نادیہ یہ سن کر کافی شرما سی گئی اسے سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ وہ کیا بولے تبھی عدنان نے دوبارا اپنا سوال دہرایا جس پر نادیہ نے مشکل سے بس اتنا کہا کہ اچھے ہیں آپ بھ

عدنان: کیا حسن سے بھی اچھا ہوں یا اس سے کم اچھا ہ

نادیہ: نہیں میرے بھائی جیسا کوئی نہیں اس جواب پر عدنان ہنستے ہوئے بولا یہ بات تو ہے حسن جیسا تو کوئی نہیں

نادیہ اور عدنان کی باتیں چلتی رہی اور اب نادیہ کافی اچھا محسوس کر رہی تھی اور عدنان کے ساتھ فری ہو کر بات کر رہی تھی

عدنان: تو اپ کو حسن نے میرے بارے سب بتایا تو ہو گا مطلب میری عادت اور پسند وغیرہ۔۔

نادیہ: جی بتایا تھا اس نے

عدنان: تو آپ کو کوئی مسلئہ تو نہی

نادیہ: نہیں

عدنان: مجھے حسن آپ دونو کے درمیان جو کچھ بھی ہوا سب بتایا۔۔۔

نادیہ یہ سن کر ایک بار پھر تھوڑا شرما اور ڈر سی گئی جس کو۔عدنان نے فوراً بھانپ لیا اور بولا

مجھے اس سب سے کوئی پرابلم نہیں ہے دراصل سچ پوچھیں تو میں بھی ایسی ہی ایک فیملی چاہتا تھا جو انجوائے بھی کرے اپنے اپنے طریقے سے اور ایک دوسرے کے ساتھ بھی رہے

نادیہ کو عدنان کے جواب سے کافی مطمئن ہو گئ

بہت دیر باتوں کا سلسلہ جاری رہا اور پھر حسن بھی واپس آ گیا

حسن: ہاں تو جی کچھ باتیں ہوئی یا دونو چپ بیٹھے رہ

عدنان: ہاہاہا نہیں نہیں ہم نے بہت ساری باتیں کی ہاں تمھاری باجی تھوڑی شرمیکلی ہیں پر باتیں اچھی کرتی ہیں

حسن: میری باجی کی یہ بھی ایک خوبی ہے جو مجھے بہت پسند ہے

اب عدنان دونو کو لے کر مارکیٹ چلا گیا وہاں سے شاپنگ شروع ہوئی

کپڑے کی دکان پر بھی حسن نے نادیہ کو خود عدنان کے ساتھ بیٹھا دیا اور پھر وہ دونو اپس میں باتیں کرتے شاپنگ کرنے لگے

حسن کو نادیہ کا کسی غیر مرد کے قریب جانا ایک عجیب لزت دے رہا تھا وہیں نادیہ بھی اب سمجھ گئی کہ اس کا عدنان سے بات کرنا حسن کو برا نہیں لگ رہا اس لیے اب وہ کھل کر عدنان سے باتیں کر رہی تھی

شاپنگ اور کھانا وغیرہ کے بعد شام کو سب واپس لوٹے حسن اور نادیہ کو گاؤں کے باہر ہی عدنان نے اتار دیا کیونکہ ابھی گاؤں میں یہ بات نہیں پتا تھی کہ عدنان کی شادی نادیہ سے ہو گی اور ویسے بھی گاؤں میں ایسے لڑکی کا اپنے ہونے والے منگیتر کے ساتھ گھومنا اور بھی برا سمجھا جاتا تھا

گھر پہنچ کر نادیہ امی کر شاپنگ دیکھانے لگی اور حسن بھی کمرے میں جا کر کپڑے چینج کرنے لگ

رات کو حسن اکیلا کمرے میں ہی تھا کہ عدنان کی کال آئی حسن نے کال اٹھائی تو عدنان سے باتیں کرنے لگا کہ آج بہت مزہ آیا

تبھی حسن نے عدنان سے پوچھا

حسن: عدنان میں جب چلا گیا تھا تو پیچھے کیا باتیں ہوئ

عدنان: کچھ خاص نہیں بس ایک دوسرے کا پوچھتے رہ

حسن: کیا مطلب کوئی نجی یعنی سیکس وغیرہ کی بات نہیں ک

عدنان: پاگل ہو یار پہلی بار مجھ سے تو نہیں ہو پائ

حسن: اور تم نے باجی کو کوئی ہاتھ وغیرہ بھی نہیں لگایا

عدنان کو حسن کی باتیں عجیب لگ رہی تھی دل تو تب عدنان کا بھی تھا اور نادیہ کا بھی نادیہ تو اندر سے پوری رنڈی بننے کو تیار تھی مگر شرم وحیاء کی بھی لاج رکھے ہوۓ تھی

عدنان: نہیں یار ۔۔۔۔مگر سچ بتاؤں تو دل بہت کیا اور برا نا مانو تو ایک اور بات بول

حسن: یار کھل کر بولو میں کیوں برا مناؤں گا حسن تو چاہتا یہی تھی کہ عدنان اس کی شریف اور معصوم باجی کے بارے گندی باتیں کرے اسے یہ سب ایک الگ مزہ دے رہا تھ

عدنان: بات یہ ہے کہ یار تمھاری باجی کے ڈوبٹے کہ نیچے مموں کا سائز بہت مست تھا کاش کہ انہیں میں ٹک کر سکتا اور دیکھ سکتا

یہ سن کر تو حسن کے اندر بجلی دوڑ گئی نا جانے اسے عدنان کے منہ سے اپنی باجی کے بارے باتیں بہت مزہ دے رہی تھی

حسن: وہ بے وقوف انسان اکیلا کس لیے چھوڑ کر گیا تھا باتھ مار لینا تھا

عدنان: یار میں ڈر گیا تھا اور تم تو جانتے ہو مجھے لڑکیوں کا زیادہ ایکسپیرینس نہیں ہے

یہ سن کر حسن کے شیطانی دماغ میں ایک اور خیال آیا اور وہ بولا

اچھا ایسا مرو میں تھوڑی دیر میں تمھیں وٹس ایپ پر کال کرتا ہوں وڈیو تب باجی کو دیکھ بھی لینا اور بات بھی کر لینا

یہ سن کر تو عدنان یقین نہیں کر پایا اور پھر اوکے بول کر کال بند کر دی اب عدنان کا دل بھی مچل رہا تھا اور وہ کال کے انتظار میں تھا وہیں حسن اس انتظار میں تھا کہ سب سو جائیں تو وہ نادیہ کہ کمرے میں جاۓ

رات 9:40 کے قریب امی ابو جا کر اپنے کمرے میں سو گئے وہیں نادیہ بھی اپنے کمرے میں جا کر حسن کا انتظار کرنے لگی کیونکہ اب تو حسن کا باجی کو چودنا روز کا معمول تھا

حسن کمرے سے نکل کر نادیہ کے کمرے میں گھس گیا اور اور دروازے کی کنڈی لگا کر نادیہ کے ساتھ بستر پر سائیڈ پر جا لیٹ

حسن: باجی آج مزہ آیا؟؟

نادیہ: شرماتے ہوۓ بہت زیاد

حسن: تو عدنان نے کچھ بات کی یا اپنا لن دیکھای

نادیہ حسن کے منہ سے اچانک ایسی اوپن بات سن کر شرما سی گئی اور شرماتے بولی چپ کرو بے شرم۔۔

حسن ہنستے ہوۓ باجی شرماؤ نہیں اگر دل ہے دیکھنے کا تو میں ابھی دیکھا دیتا ہوں

نادیہ: کیا مطلب ابھی کیسے

حسن: وڈیو کال کر کے

یہ سن کر نادیہ کا دل تو مچل اٹھا اور زور زور سے دھڑکنے لگا نادیہ کا تو بس چلتا تو کسی رنڈی کی طرح بیچ سڑک مردوں سے چدائی کرواتی مگر شرم وحیاء کے ایک پردے میں لیٹی اپنے اندر کے حیوان کو چپ کراۓ پڑی تھی اور پھر ایک شرماتی ہنسی کے ساتھ بوکی نہیں بے شرم مجھے نہیں دیکھنا

حسن: پر باجی عدنان تو آپ کے نورانی کنبد مموں کو دیکھنے کے لیے بے تاب ہے نادیہ یہ سن کر اور شرما اٹھی اور اب اپنے اندر کے حیوان کو اور نہیں روک پا رہی تھی وہ سمجھ گئی کہ حسن اب اس کا ایک اچھا سیکس پاٹنر ہے اور اس سے وہ اب کھل کر بات کر سکتی ہے تاکہ یہ سب اور زیادہ مزے دار بن جاۓ

نادیہ کچھ نا بولی اور شرمانے لگی تبھی حسن نے عدنان کو وڈیو کال کر دی عدنان تو کب سے بےتاب بیٹھا حسن کی کال کا انتظار کر رہا تھا کال آتے ہی اس نے آن کی تو سامنے نادیہ اور حسن اکھٹے لیٹے نظر آۓ

حسن: کیسے ہو عدنا

عدنان: میں ٹھیک تم سنا

حسن: میں بھی ٹھی

عدنان: نادیہ آپ کیسی ہیں

نادیہ: شرماتےہوۓ ٹھیک

حسن: عدنان تم نے کیا دیکھنا ہے باجی کا کھل کر بتاؤ میری بہن سب دیکھاۓ گ

عدنان بھی تھوڑا شرما سا گیا اور پھر بولا اپنی باجی کے دودھ دیکھاؤ جو اتنے پارے باہر سے لگتے ہیں میں انے ننگا دیکھنا چاہتا ہو

یہ سن کر نادیہ شرما اٹھی اور حسن موبائل کا کیمرہ نادیہ کے سامنے کر کے اپنے ہاتھوں سے اس کا ڈوبٹا مموں سے ہٹا دیا

یہ سب عدنان وڈیو میں دیکھ رہا تھا نادیہ شرم کے مارے منہ ہر ہاتھ رکھ کر شرمانے لگی پر اندر ہی اندر اڈے یہ سب بہت مشہ دے رہا تھا اپنے ہی بھائی کے ہاتھوں وہ ایک رنڈی کی مانند اپنی بولی لگوا رہی تھی

حسن نے ڈوبٹے کو ہٹایا تو نادیہ کے 36 کے ممے اس کی تنک قمیض میں ابھرے کھڑے تھے حسن اپنے ہاتھ میں کے کر مموں کو مسلنے لگا جسے دیکھ عدنان لا لن بھی راڈ بن گیا پھر حسن نے نادیہ کی قمیض کے اوپر کا بٹن کھولا اور مموں کو باہر نکال کر عدنان کو دیکھانے لگا عدنان کی تو مانو جان لن میں آ گئی ایسا مزے دار نظارہ اس نے کبھی سوچا بھی نا تھا وہیں نادیہ کو بھی کافی مزہ ا رہا تھا اپنے ہی بھائی کے ہاتھوں بے حیائی کرنے کا اور حسن تو اس سب کو بہت انجوائے کر رہا تھا حسن کو ایسا لگ رہا تھا جیسے وہ اپنی نیک شریف باجی کی عزت خود نیلام کر رہا ہے اب حسن نادیہ کے موٹے مموں کو فل ننگا کر کے چوسنے لگا جسے وڈیو میں دیکھ عدنان کی حالت بھی خراب ہونے لگی

تبھی حسن نے نادیہ کو فل ننگا کر دیا اور وڈیو میں عدنان کو دیکھانے لگا عدنان تو یہ سب دیکھ کر پاگل ہوۓ جا رہا تھا تبھی حسن بولا اب بہت مزے لے لیے اب میری باجی کو اپنا لن دیکھاؤ

حسن نے یہ بول کر نادیہ کے ساتھ لیٹ گیا سور عدنان اپنا لن وڈیو میں دیکھانے لگا نادیہ جان بوجھ کر شرماتے ہوۓ بولی نہیں اور پھر جب اس کی نظر موبائل میں لن پر پڑی تو اس کی آنکھیں باہر آ گئی عدنان اپنا 9 انچ کا موٹا پہلوانی لن اپنے ہاتھ میں لیے مسل رہا تھا نادیہ کی تو آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئی اور پھر حسن نے اپنا لن نادیہ کی پھدی میں ڈال کر اسے جھٹکے لگانے لگا عدنان یہ سب نظارے دیکھ مٹھ مار رہا تھا اور نادیہ مستی میں مست تھی تھوڑی دیر یہ سب کھیل چلا اور پھر حسن نادیہ اور عدنان تینوں نے اپنے اپنے سمندر کھول دیے یہ سب کر کے حسن اور نادیہ کو بہت مزہ آیا تھا اور اب نادیہ اپنے اندر کی چھپی رنڈی کو باہر نکال لائی اور اب وہ حسن سے ہر بات کھل کر کرتی

دن ایسے ہی گزرنے لگے اور اخر وہ دن بھی ا گیا جب نادیہ کی عدنان سے شادی تھی شادی بہت سادہ سی تھی اور پھر عدنان بارات لے کر ایا اور نادیہ کو ساتھ لے گیا

شادی کی پہلی رات نادیہ پلنگ پر بیٹھی عدنان کے انتظار میں تھی وہیں عدنان نے حسن کو کال کی کہ میں کمرے میں جا رہا تھماری باجی کی چدائی کرنے اور آج تمھیں وڈیو میں تمھاری بہن کی سہاگ رات دیکھاؤں گا

کمرے میں جا کر عدنان نادیہ کے پاس بیٹھ گیا کچھ باتیں کرنے کے بعد عدنان بولا کہ کیا آج کی چدائی کی وڈیو تمہارے ھائی کو بھی دیکھائی جاۓ یہ سن کر نادیہ ہنستے ہوۓ بولی کیوں نہیں اور پھر عدنان نے حسن کو ویڈیو کال ملا کر اپنا موبائل سائیڈ پر کمرے کا منہ بیڈ کی طرف کر کے رکھ دیا

حسن اب سہاگ رات کو لاؤ دیکھ رہا تھا عدنان نادیہ کے کپڑے اتارنے لگا اور اگلے ہی لمحے نادیہ کو ننگا کر کے بیڈ پر لیٹا یا اور پھر اپنے کپڑے اتار کر ننگا ہو گیا

نادیہ نے جونہی عدنان لا لمبا موٹا لن دیکھا اب بنا شرماۓ ایک رنڈی کی طرح خود ہی پکڑ کر چوسنے لگی حسن یہ سب نظارے وڈیو کال سے دیکھ رہا تھا اور بہں کو ایسی رنڈی انداز پر شاباش دے رہا تھا وہیں نادیہ عدنان کے لن کو پاگلوں کی طرح چوسے جا رہی تھی کچھ دیر بعد عدنان پیچھے ہٹ گیا کیونکہ وہ فارغ ونے والا تھا اور خود کو روک رہا تھا تبھی عدنان نے حسن سے کہا کہ تم بھی ادھر آ جاؤ مل کر تمھاری بہن و چودھتے ہیں یہ سن کر حسن کی تو عید بن گئی نادیہ بھی جلدی سے بولی ہاں حسن اجا

حسن: اوکے میں آتا ہوں

عدنان کے گھر کوئی مہمان نا تھا بس محلے کے کچھ لوگ ہی شادی میں شامل تھے جو گھروں کو جا چکے تھے اور حسں کے گھر بھی کوئی خاصا مہمان نہیں ٹہھڑا ہوا تھا حسن گھر سے نکل کر جلدی سے عدنان کے گھر چلا ایا کمرے میں داخل ہوتے ہی حسں نے بھی اپنے کپڑے اتار دی

اب کمرے میں دو مرد ایک عورت کو نوچنے کو تیار تھے حسن نادیہ کہ کبھی ممے چوستا تو عدنان نادیہ کی پھدی نادیہ دو مردوں سے مزہ لینے میں بہت خوش تھی جہاں وہ ایک مرد کے لیے ترستی رہی تھی  دو مرد مل کر کسی بھوکے شیروں کی طرح چاٹ رہے تھے

حسن نے پھر نادیہ کو سائیڈ کیا اور اپنا لن اس کی گانڈ کے ہول پر رکھ کر اپنے ہاتھ سے پکڑ کا عدنان کا لن نادیہ کی پھدی پر رکھ دیا اب نادیہ کی گانڈ میں حسن کا لن اور پھدی میں عدنان کا لن تھا دونو بہت بے دردی سے نادیہ کو چودھے جا رہے تھے اور خالی گھر اور کمرے میں نادیہ کی مست بھری چیخ گونج رہی تھی کافی دیر  چدائی کے بعد حسن اور عدنان نے اپنے اپنے لن کا پانی نادیہ کہ جسم میں کھول دیا سور فارغ ہو کر لیٹ گئے نادیہ کو آج ایک رنڈی جیسا محسوس ہو رہا تھا وہ ہمیشہ سے ایسی ہی چدائی چاہتی تھی جہاں کئی مرد اس کے جسم کو نوچ نوچ ر کھائیں

اب دوسری بار پھر لن کھڑے ہونے شروع ہو چکے تھے حسن نے عدنان کے کہا کے اب تم گانڈ میں ڈالو اور میں پھدی میں ڈالتا ہوں مگر عدنان بولا نہیں تم اور نادیہ دونو اپنی گانڈ نکال کر میرے سامنے گھوڑی بن جاو یہ سن کر تو حسں اور خوش ہوا اور پھر نادیہ اور حسن دونو بہن بھائی گھوڑی بن کر عدنان سے گانڈ چدوانے لگے نادیہ نے عدنان لا لن اپنے ہاتھوں سے حسن کی گانڈ میں ڈالا عدنان کبھی نادیہ کو چودھتا تو کبھی حسن کو پھر نادیہ کی گانڈ میں حسن نے اپنا لن ڈالا اور حسں کی گانڈ میں عدنان نے ڈال دیا اور چدآئ پھر سے شروع و گئی کافی وہیات چدآئ کے بعد ایک ار پھر دونو فارغ ہو گئے

اس رات تین بار بہت ہی گندی چدائی وئی جہاں ایک بھائی اپنی ہی بہن کی  رات کے دن اپنی سگی بہن سے چدائی کرتا اور کرواتا رہا

اس دن نے بعد نادیہ اور حسن کی چدائی چلتی رہی حسن کا جب دل چاہتا وہ عدنان کے گھر جا کر اپنی باجی نادیہ کو چودھ آتا کئی بار تو حسن ںے عدنان کے سامنے ہی نادیہ کو چودھ ڈالا وہیں کبھی کبھی عدنان نادیہ کے سامنے حسن کی چدائی بھی کرتا تھا ۔۔۔

یہ تھی دوستوں میری کہانی جیسا کہ میں نے شروع میں بتایا تھا کہ یہ کہانی تھوڑی سچی اور تھوڑی اس میں باتیں خود سے شامل کی گئی ہیں امید کرتا ہوں کہ اپ لوگوں کو یہ کہانی پسند آئی ہو گی اپنی راۓ ضرور دیجیۓ گا میرے ٹویٹر اکائونٹ پر یا اس سٹوری کے کمنٹ باکس میں کمنٹ کر کے مزید یہ بھی بتائیں کے اگکی سٹوری کس ٹاپک پر ہو اور کسی ہو آپ کی راۓ کا انتظار ہے گا آپ کا اپنا ایڈمن عشمان۔    ے ؤ         ںئ  کؤن      ۔اہ؟ا        او  ییےی  ا      ے ی  ۔ ں ۔  وی     ۔   ۔ .   

ایک تبصرہ شائع کریں

3 تبصرے