نادیہ مانو جیسے کسی شراب کے نشے میں گم تھی ایک مرد کا احساس جس کو پانے کے لیے وہ ساری زندگی ترسی تھی اج اسے پاگل کر گیا تھا سارا دن حسن اور نادیہ ایک دوسرے کے پیار کے نشے میں مست رہے
رات کو جب سب سو گئی تو حسن اٹھ کر نادیہ کے کمرے میں چلا گیا جہاں نادیہ پہلے سے حسن کے انتظار میں تھی حسن کے کمرے میں جاتی ہی نادیہ نے حسن کر پکڑا اور چومنے لگی سارے دن کی تنہائی اور بھائی کے جسم کی تڑپ اس کے ایک ایک انداز سے جھلک رہی تھی وہیں حسن بھی نادیہ کو اپنی باہوں میں دبوچے اسے چوم رہا تھا اور اپنے ہاتھوں سے اس کی گانڈ کو مسلے جا رہا تھا حسن کا لن تن کر کھڑا ہو چکا تھا جو نادیہ کے ٹانگوں کے درمیان اپنا دباؤ ڈال رہا تھا بھائی بہن کے درمیان اب وہ کھیل شروع ہو چکا تھا جہاں رشتوں کا احساس دم توڑ دیتا ہے دونو سیکس اور مستی کہ اس عالم میں تھے جہاں انہیں دنیا کی خبر تک نہ تھی کچھ دیر بعد حسن نے نادیہ کو کہا کہ کپڑے اتارو جس پر نادیہ شرما کر بولی اپنے ہاتھوں سے اتار دو بھائی اور پھر ایک پیاری سی مسکراہٹ دے کر نیچے منہ کر لیا حسن کو باجی کا یہ انداز کافی پسند آیا اس کا پیار اور بڑھ گیا حسن نے سب سے پہلے باجی کے سر سے ڈوبٹا اتار کر دور پھینک دیا اور پھر ان کے جسم کو مست نگاہوں سے دیکھنے لگا پھر حسن نے نادیہ کے گلے میں ہاتھ رکھا اور اسے کھنچتے ہوۓ بھاڑ ڈالا حسن ایک الگ نشے میں تھا اپنی ہی باجی جو کہ ایک شرم و حیا کا پیکر تھی جن کے جسم کی ایک جھلک دیکھنے کو وہ ترستا تھا آج اسے اپنے ہی ہاتھوں سے اتار رہا تھا حسن نے نادیہ قمیض مموں کی جگہ سے بھاڑ ڈالی اور پھر اپنے ہاتھوں میں ممے لے کر انہیں زور زور سے مسلنے لگا نادیہ کو ایک سرور بھرا درد ہونے لگا جس سے اس کی ہلکی ہلکی سسسی آآآآہ ہ ہ نکلنے لگا نادیہ کی مست بھری آوازیں حسن کو بہت مزہ دے رہی تھی پھر حسن نے نادیہ کی قمیض اتاری اور شلوار بھی کھینچ کر دور پھنک دی اب نادیہ حسن کے سامنے بلکل ننگی تھی حسن کو کافی مزہ آ دہا تھا نادیہ کو اپنے سامنے ننگا دیکھ کر حسن نادیہ کہ کبھی مموں کی چوچیوں کو مسلتا تو کبھی اس کی موٹی گاںڈ پر تھپڑ مارتا جس سے نادیہ کی ایک سرور بھری سسکی نکلتی نادیہ کو بہت مزہ آ رہا تھا وہ بھی یہی چاہتی تھی کہ کوئی مرد اسے آیسے ہی چودھے حسن نے نادیہ کو بیڈ کر بیٹھا دیا اور پھر جلدی سے اپنے کپڑے بھی اتار دیے نادیہ نے جونہی حسن کا لمبا موٹا لن دیکھا اس کا دل منہ کو آ گیا پہلی بار کسی وہیات لن کو نادیہ اصلی میں اپنے سامنے دیکھ دہی تھی اس کو اپنے ہاتھوں میں پکڑتے ہی حسن اور نادیہ کہ جسم میں ایک بجلی سی دوڑ گئی نادیہ کچھ دیر تک حسن کے لن سے کھیلتی اور پاگلوں سے جیسے دیکھتی رہی پھر حسن نے نادیہ کہ منہ کو اپنے ہاتھوں میں کیا اور اپنا لن اسے کے منہ پر رکڑنے لگا حسن مانو جیسے جنت میں ہو باجی کا نورانی چہرے پر حسن کا لن رگڑنا اسے پاگل کر رہا تھا وہیں نادیہ آنکھیں بند کیے حسن کے لن کو النے منہ پر رکڑتا محسوس کر کے پاگل ہو رہی تھی حسن نے پھر اپنے لن کا ٹوپا باجی کے ہونٹوں پر مسلنا شروع کر دیا اور نادیہ نے بھی منہ کھول کر حسن کے کن کو ویلکم کہا حسن کے لن پر باجی کے ہونٹوں کی نرماہٹ اور گرماہٹ جونہی لگی اس کی جان نکل کر لن میں آ گئی حسن سرور اور مستی کے اس عالم میں تھا جہاں شاید جنت کا مزہ مل رہا۔تھا اسے نادیہ نے آہستہ آہستہ ہر کے حسن کا آدھا لن اپنے منہ میں اتار لیا تھا اور پاگلوں کے جیسے چوپے لگا رہی تھی اب حسن کی ہمت جواب دے رہی تھی تبھی اس نے نادیہ کو بالوں سے پکڑا اور اپنا لن اس کے منہ میں اندر تک اتارنے لگا نادیہ کا سانس لینا بھی دشوار ہو رہا تھا مگر اسے یہ بھی مزہ دے رہا تھا حسن اب کسی ظالم مرد جے جیسے اپنا لن پورا نادیہ کے گکے تک اتارے پوری قوت سے لن اندر باہر کرنے لگا جس سے نادیہ کے منہ سے ایک بہت ہی دل گداز آوازیں حسن کی گرمی بڑھانے لگی کچھ دیر بعد حسن کے لن نے پانی چھوڑدیا حسن کے لن کا پانی تھوڑا نادیہ کے منہ میں گرا اور باقی حسن نے آپنی پاکیزہ باجی کے نورانی چہرے پر ڈال دیا حسن کی گرمی نکل چکی تھی مگر نادیہ ابھی بھی اسی میں تڑپ رہی تھی حسن نے نادیہ کو لٹا دیا اور اس کی پھدی کو چاٹنے لگا نادیہ کی تو مانو مستی اور مزے سے جان نکلنے لگی تھی حسن باجی کے پھدی سے نکلنے والے رس کو ایسے چاٹ رہا تھا مانو جیسے کسی شہد کو چاٹ رہا ہو نادیہ کچھ ہی دیر۔ٹک پائی اور اس مستی اور لذت کے سمند میں وہ بھی فارغ ہو گئی نادیہ کی پھدی سے ایک گرم لیسدار معدہ نکل کر حسن کے منہ پر لگنے لگا
حسن اور نادیہ تھک کر وہیں لیٹ گئے نادیہ کی سانسیں تیز تھی اور وہ ہانپ رہی تھی کافی دیر دونو لیٹے رہے
کچھ دیر بعد دوبارا حسن کا لن تن گیا اور حسن باجی نادیہ کے اوپر لیٹ کر اپنا لن ان کی پھدی پر مسلنے لگا اور ان کے مموں کو منہ میں لے کر چوسنے لگا نادیہ بھی اب دوبارا مستی میں آگئی کافی دیر حسن یونہی کرتا رہا مگر پھدی پر لن کی رگڑ سے دونو کے جسموں میں آگ لگ چکی تھی اور یہ آگ اب اندر جا کر ہی ختم ہونا تھی لذت کا ایسا احساس تھا کہ دونو کو کچھ خبر تک نہ تھی حسن نے اپنا لن باجی کی پھدی پر رکھا اور اسے آہستہ سے جھٹکا دے کر تھوڑا ڈا اندر کیا نادیہ کو مزہ آ رہا تھا تبھی جب حسن نے ایک لمبا جھٹکا مارا تو اس کے لن کا ٹوپا باجی نادیہ کی نازک اور پاکیزہ پھدی میں جا گھسا نادیہ کی ایک زوردار چیخ نکل گئی جو شاید ابو امی کے کمرے تک گئی ہو مگر وہ نیند میں تھے اور حسن جس مستی کی دنیا میں گم تھا اسے اب کسی اور کی پرواہ نہ تھی نادیہ درد میں تھی اور حسن سے آہستہ اور رکنے کی گزارش کر رہی تھی مگر اب کہاں حسن نے ایک بار پھر جھٹکا مارا اور اب کی بار اس کا آدھا لن نادیہ کی پھدی کو چیرتا اندر گھس گیا نادیہ کی در سے بری حالت تھی حسن نے اس کے منہ پر ہاتھ رکھ لیا جس سے اس کی چیخیں دبی رہی پہلی بار احسن کو پھدی کا۔مزہ ملا تھا حسن اب جھٹکوں پہ جھٹکے مارے جا رہا تھا جس سے اس کا لن نادیہ کےاندر سما چکا تھا نادیہ درد سے سسکیاں لے رہی تھی پھر کچھ دیر بعد نادیہ کا یہ درد مزے میں تبدیل ہو گیا وہیں حسن کے جھٹکوں کی رفتار کافی بڑھ چکی تھی مانو جیسے کوئی مشین ہو حسن پوری قوت سے باجی نادیہ کا پھدا چود رہا تھا وہیں نادیہ بھی اب مزہ لینے لگی تھی اسی لیے حسن کا پھرپور ساتھ دے رہی تھی کچھ دیر بعد دونو ایک بار پھر فارغ ہو گئے اور حسن نے سارا پانی باجی نادیہ کے اندر ہی ڈال دیا حسن فارغ ہو کر نادیہ کے اوپر سے اتر کر لیٹ گیا اس کی سانسیں پھولی تھی وہیں نادیہ۔کا بھی برا حال تھا پھر حسن اٹھ کر کمرے میں آ گیا حسن کو جو مزہ آج ملا تھا اس کا کوئی مول نہیں تھا وہیں نادیہ بھی لن لے کر پر سکون تھی اور اس نے اس چدائی کا بہت مزہ بھی لیا دونو تھک چکے تھے لیٹتے ہی سو گئے
اگلی صبح نادیہ کی آنکھ کھلی کو آذان ہو رہی تھی نادیہ نے جونہی بستر سے اٹھنا چاہا اس کے جسم میں ایک درد کی لہر دوڑ گئی اس کی قمر سے لے کر نیچے کا سارا حصہ بری طرح درد میں تھا جس کی وجہ سے اس سے اٹھا بھی نہیں جا رہا تھا تبھی نادیہ کی نظر جب کمرے پر پڑی تو کمرے میں اس کی شلوار اور قمیض بکھری پڑی تھی اور وہ بلکل ننگی تھی تبھی اس کے ذہن میں وہ رات کا مزہ سب گھومنے لگا نادیہ ایک طرف لن کا مزہ لے کر کافی خوش تھی وہیں اسے یہ ندامت بھی ہونے لگی کہ یہ کیا گناہ ہو گیا اس سے اس نے اپنی ہی سگے بھائی سے چدائی کر ڈالی آہستہ آہستہ اس کا ڈر اور گناہ کا احساس بڑھنے لگا نادیہ اسی سوچ میں مشکل سے اٹھی اپنے نئے کپڑے نکالے اور پرانوں کو چھپا دیا
نادیہ کو اب پشیمانی ہو رہی تھی ایک طرف رات کا مزہ اور سرور تھا تو ایک طرف نادیہ کا گناہ جو اس نے اپنے سگے بھائی سے کیا نادیہ کی حالت خراب تھی وہ بمشکل اٹھی اور جا کر ناشتہ وغیرہ بنانے لگی
سورج نکل چکا تھا اور ابو ناشتہ کر کے کام پر جا چکے تھے تبھی نادیہ کی امی بھی ناشتہ کر کے بستر سمیٹنے چل دی جونہی امی کمرے میں داخل ہوئی اور ان کی نظر نادیہ کے سفید بستر پر پڑی تو وہاں خون کا دھبا تھا جو کہ سفید بستر پر خاصا صاف نظر آ رہا تھا نادیہ تبھی برتن اٹھا کر دھونے کو جا ہی رہی تھی کہ امی نے کمرے سے آواز دی نادیہ
نادیہ امی کی بات سن کر کمرے میں گئی
نادیہ: جی امی
امی: نادیہ تمھیں ماہواری ہو گئی ہے
نادیہ امی کی بات سن کر نہیں بولنے کی والی تھی کہ اچانک اس کی نظر بھی بستر پر لگے خون کے دھبے پر پڑ گئی اور ایک دم نادیہ چونک گئی اور جلدی سے بولی جی امی
امی: تو بیٹا خیال رکھا جرو کتنی بار بتایا ہے کہ کپڑے کا استعمال کیا کرو
نادیہ: امی رات کو اچانک ہوا پتا نہیں چلا
امی: اچھا اب اسے سمیٹ دو اور آج دھو دینا یہ کہہ کر امی کمرے سے باہر چلی گئی
وہیں نادیہ کے پاؤں تلے زمین نکل گئی کیونکہ نادیہ سمجھ گئی کے یہ خون رات کو بھائی سے چدائی کے دوران اس کا کنوارہ پن ٹوٹنے کی نشانی ہے اب نادیہ کی پریشانی اور پشیمانی اور بڑھ گئی نادیہ نے جلدی سے بستر کو سائیڈ کیا اور سوچنے لگی کہ یہ کیا گناہ وہ کر بیٹھی ہے اور پھر مجبوراً جسم کے درد کے باوجود گھر کے کاموں میں لگ گئی
تقریباً 10 بجے کے قریب حسن بھی آٹھ گیا اٹھتے ہی حسن کے دماغ میں رات کی جنت کے نظارے اس کے سامنے گھومنے لگے حسن کافی خوش تھا کیونکہ اب گھر میں ہی اسے ایک جسم مل چکا تھا جسے وہ جب چاہے جیسے چاہے استعمال کر سکتا تھا اور کسی کو شک تک نہیں ہو گا حسن اسی خوشی میں اٹھا نہا دھو کر باہر جا بیٹھا نادیہ جو بیٹھے برتن دھو دہی تھی حسن کو دیکھ کر مسکرائی حسن بھی مسکرتے امی کے پاس جا بیٹھا دن جیسے تیسے گزر گیا حسن سارا دن رات کا انتظار کرتا رہا اور رات ہوتے ہی پھر سے نادیہ کے کمرے میں چلا گیا
نادیہ جو پشیمان اور پریشان دہی سارا دن حسن کو آتا دیکھ وہ بھی کل والے مزے کو سوچنے لگی اور پھر حسن کو روک نا پائی حسن جاتے ہی نادیہ کو ننگا کر کے اسے چومنے لگا اور پھر وہی چدآئ اب نادیہ اور حسن کے بیچ روز چدآئ ہونے لگے اور نادیہ کی پشیمانی اور گناہ کا احساس ختم ہو چکا تھا مگر اسے ایک ڈر تھا اور وہ اس کی کنوارہ پن ختم ہونا دن گزرنے لگے تبھی ایک دن حسن کے ابو نے گھر آ کر بتایا کہ نادیہ کا آیک جگہ سے رشتہ آیا ہے لڑکا پہلے سے شادی شدہ ہے اور طلاق ہو گئی تھی اچھے لوگ ہیں
یہ سن کر نادیہ کی تو جان نکل گئی وہیں حسن بھی تھوڑا پریشان سا پو گیا
رات ہوتے ہی نادیہ حسن کے کمرے میں جا پہنچی
نادیہ: حسن مجھے یہ شادی نہیں کرنی
حسن: کیا ہوا باجی کیوں نہیں کرنی
نادیہ: یہ تم پوچھ رہے ہو تم نے مجھے کنوارا نہیں چھوڑا اور اب میری کہیں اور شادی ہوئی تو قیامت آئے گی
حسن یہ سنتے ہی سوچ میں پڑ گیا کیونکہ اب وہ بھی ڈر گیا تھا نادیہ کی بات سچ تھی
تو باجی اب کیا کریں ابو امی کو منع بھی نہیں کر سکتے
نادیہ: یہی سوچ سوچ کر تو میری جان نکل۔رہی
حسن اور نادیہ کچھ دیر باتیں کرتے رہے مگر کوئی حل نہیں نکل رہا تھا تبھی حسن کو ایک خیال آیا
حسن: باجی ایک راستہ ہے
نادیہ: کونسا جلدی بتاؤ
حسن: باجی میرا دوست عدنان اس سے اگر آپ کی شادی کروا دیں تو
نادیہ: کیا مطلب۔۔۔۔ تو اسے بھی پتا چل جاۓ گا کہ میں کنواری نہیں ہو
حسن: باجی اسے میں سمجھا لوں گا
نادیہ: کیسے کیا سمجھاؤ گے کہ میں نے میری بہن سے زناہ کیا ہے۔۔۔۔ نادیہ نے طنزیہ لہجے میں کہا
حسن: جی باجی یہی کہوں گا
نادیہ: تمھارا دماغ تو خراب نہیں ہو گیا ہوش میں تو ہو
حسن یہ سن کر بولا جی باجی ہوش میں ہوں اور پھر نادیہ کو عدنان اور اپنے درمیان رشتے کے بارے سب کچھ بتا دیا یہ سن کر نادیہ حیرانگی سے منہ بناۓ حسن کو دیکھنے لگی
حسن: باجی وہ بھی آزاد خیال ہے اور مجھے پورا بھروسہ ہے وہ میری بات کسی کو نہیں بتاۓ گا دوسرا وہ لڑکوں کا شوق رکھتا ہے ایسے میں ہمارا جسمانی رشتہ بھی بنا رہے گا
نادیہ کو حسن کی باتیں زیادہ اچھی تو نا لگی مگر صرف یہی راستہ اسے نظر آ رہا تھا نادیہ اب کشمکش میں تھی
نادیہ: حسن سوچ لو جو ہم نے کیا ہے وہ معاشرے میں ناقابلِ قبول ہے مانا تمھارے اور عدنان کے درمیان بہت اوپن رشتہ رہا ہو مگر یہ بات سن کر کوئی بھی قبول نہیں کر پاۓ گا
حسن: مگر باجی مجھے صرف اسی پر بھروسہ ہے اور مجھے لگتا ہے وہ میرا ڈاتھ دے گا
نادیہ: حسن مجھے ڈر لگ رہا مگر اب تم پہ ہے تم نے ہی مجھے اس سب میں ڈالا اب تم ہی نکالو مجھے تم سے پیار ہو گیا ہے اور اب حسن میں تمھارے بغیر نہیں رہ سکوں گی
حسن: باجی جانتا ہوں میں اور مجھے آپ بات کرنے دو عدنان سے
نادیہ: ٹھیک ہے کر لو بات مگر اس بارے پھر بھی سوچ لینا کیونکہ تم کسی کو بھی یہ بتاؤ گے کہ تمھارا اپنی ہی بہن کے ساتھ جسمانی رشتہ ہے تو وہ اس بات کو قبول نہیں کر پاۓ گا
حسن: باجی میں عدنان سے ایک طریقے ڈے بات کروں گا
نادیہ حسن کے اس فیصلے اور عدنان کو سب بتانے سے کافی ڈر رہی تھی مگر اس کے سوا کوئی رستہ بھی نا تھا سو اوکے بول کر چلی گئی
حسن اب گہری سوچ میں پڑ گیا اور دل ہی دل میں دعائیں کرنے لگا کہ عدنان اس کو سمجھے اور اس کا ساتھ دے کیا عدنان سے بات کرنا صحیح ہو گا اسے کیسے بتاؤں گا کہ میں نے اپنی۔ہی سگی بہن سے زناہ کیا ہے اور وہ بھی کئی بار حسن کو یہ باتیں ڈرا بھی رہی تھی مگر اس کی امیدوں کا محور بھی عدنان ہی تھا
اگلی صبح حسن عدنان سے جا ملا عدنان حسن کو دیکھتے ہی اسے گکے لگا کر ملا اور بولا یار کہاں تھے اتنے دن
حسن: سب بتاتا ہوں کہیں اکیلی جگہ چلو
عدنان اور حسن کھیتوں کے کنارے چلتے جا رہے تھے اور پھر دور ایک جگہ جا کر دونو بیٹھ گئے
عدنان: حسن سب خیر تو ہے اتنے دن کہاں تھے کیا بات ہے
حسن: بس گھر پر ہی تھا مجھے تم سے کچھ خاص بات کرنی ہے
عدنان: ہاں بولو حسن کیا بات ہے
حسن: مگر اس شرط پہ کہ تم اس بات کا ذکر کسی سے نہیں کرو گے اور یہ بات راز رکھو گے
عدنان: یار حسن کیسی باتیں کر رہے ہوں کیا تمھارے میرے درمیان پہلے کوئی راز فاش ہوا ہے بتاؤ کیا بات ہے
حسن: عدنان تم شادی کیوں نہیں کر لیتے دوسری
عدنان: قدرے حیرانگی سے کیا مطلب شادی۔۔۔ کیوں کیا تم مجھ سے تنگ آ گئے ہو
حسن: نہیں نہیں یار وہ بات نہیں ہے میں ویسے پوچھ رہا
عدنان حسن کے اس انداز اور سوال پر حیران تھا کیونکہ عدنان کافی پہلے حسن جو بتا چکا تھا کہ وہ لونڈے باز ہے اور اسے لڑکیوں میں زیادہ انٹرسٹ نہیں یہی وجہ تھی کہ وہ پہلی شادی سے طلاق کے بعد دوسری شادی نہیں کرنا چاہتا
عدنان: یار میں نے تم کو سب بتایا تو تھا پھر تم وہی بات کیوں کر رہے
حسن: عدنان تم میرے سب سے اچھے دوست ہو میں تم سے کچھ نہیں چھپایا
عدنان: جانتا ہوں میری جان پر تم پہیلیوں میں بات کیوں کر رہے آخر کھل کر بات کرو
حسن کی ہمت بلکل نہیں ہو رہی تھی کہ وہ عدنان کو وہ سب بتاۓ اور وہ کافی ڈرا ہوا بھی تھا
حسن: عدنان تم میری باجی نادیہ سے شادی کر لو
عدنان حسن کی یہ بات سنتے ہی اسے حیرانگی سے دیکھنے لگا اور پھر بولا کیا۔۔۔۔۔ یہ تم کیا کہہ رہے ہو
حسن: ہاں میں صحیح کہہ رہا ہوں تم شادی کر لو باجی نادیہ سے
عدنان کو حسن کی باتیں کافی عجیب لگ رہی تھی
عدنان: حسن تمھیں ہوا کیا ہے تم مجھے جانتے ہو میں کیسا انسان ہوں اور پہلے سے طلاق یافتہ ہوں پھر بھی
حسن: ہاں سب جانتا ہوں اس لیے تمھیں کہہ رہا ہوں تم مجھے بتاؤ کہ تم میری مدد کر سکتے ہو یا نہیں
عدنان: یار حسن تمھاری ںہن کی شادی کہیں اور ہو جاۓ گی اسے کوئی اچھا رشتہ مل جاۓ گا تم پریشان کیوں ہو رہے ہو میرے ساتھ شادی کر کے تم اس کی زندگی کیوں برباد کر رہے عدنان سمجھ رہا تھا کہ نادیہ کا۔رشتہ نہ ہونے کی وجہ سے حسن پریشان ہے اور اس لیے اسے یہ سب کہہ رہا
حسن: عدنان وہ بات نہیں ہے
عدنان: پھر کیا ںات ہے یار
حسن اب سمجھ گیا کہ وہ جب تک کھل کر عدنان کو سب نہیں بتاۓ گا عدنان اس کو نہیں سمجھ پاۓ گا
حسن: عدنان میں تمھیں ایک راز بتانا چاہتا ہوں اس شرط پر کے تم میرے سر پر ہاتھ رکھ کر قسم کھاؤ کہ تم کسی کو نہیں بتاؤ گے اگر وہ سب تمھیں برا بھی لگا تو بھی کسی کو نہیں بتاؤ گے
عدنان: ہاں بولو یار میں کسی کو نہیں بتاتا کیا بات
حسن: وعدہ تو کرو
عدنان اب ڈر بھی رہا تھا کہ آخر ایسی کیا بات ہے مگر پھر اس نے حسن کے سر پر ہاتھ رکھ کر قسم کھا لی
عدنان: ٹھیک ہے تمھارے سر کی قسم کسی کو نہیں بتاؤ گا کوئی بھی بات ہوئی ہمارے درمیان رہے گی
حسن اب تھوڑا اطمینان میں آ چکا تھا مگر اسے سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ وہ بات کیسے اور کہاں سے شروع کرے
حسن: عدنان باجی نادیہ کنواری نہیں ہیں
عدنان یہ سن کر چونک سا گیا اور بولا کیا مطلب یہ کیا بول رہے ہو حسن۔۔۔۔
حسن: ہاں میں ٹھیک کہہ رہا اور اب اس کی شادی کہیں اور ہوئی تو باجی کی زندگی برباد ہو جاۓ گی اور ساتھ میری بھی بس اب تم ہی بچا سکتے ہو
عدنان: مگر حسن یہ بات تم کیسے کر رہے ہو تمھیں شاید کوئی غلط فہمی ہوئی ہے تمھاری باجی نادیہ تو کافی سمجھدار سلجھی ہوئی اور نیک لڑکی ہے تم یہ الزام ان پر کیوں لگا رہے
حسن: میں الزام نہیں لگا رہا سچ بتا رہا ہوں مجھے پتا ہے
عدنان کو حسن کی باتیں کافی کھما رہی تھی اس کے دماغ میں کئی سوال امڈ رہے تھے
عدنان: مگر تمھیں اتنا کنفرم کیسے ہے کیا تم نے کسی غیر مرد کے ساتھ ان کو۔۔۔۔۔
حسن: نہیں
عدنان کو حسن کا جواب اور زیادہ سوالوں میں ڈال گیا
یار حسن تم پھر کہہ کیا رہے ہو کیا ان کی کسی لڑکے کے ساتھ پھر دوستی یا رابطہ ہے
حسن: نہیں ایسا نہیں ہے
عدنان کو حسن کی باتیں بلکل سمجھ نہیں ا رہی تھی
عدنان: حسن یار مجھے تمہاری بلکل سمجھ نہیں آ رہی ایک طرف تم کہتے ہو کہ تمھاری باجی کنواری نہیں ہیں اور ایک طرف تم کہتے ہو کہ ان کا کسی غیر مرد سے کوئی رابطہ بھی نہیں
حسن اپنی بات بتانا چاہتا تھا مگر اسے ہمت نہیں ہو رہی تھی کہ آخر وہ۔کیسے بتاۓ کہ اپنی بہن کی دکان۔کھولنے والا کوئی اور نہیں وہی ہے
حسن: یار میں صحیح کہہ رہا ہوں اب مجھے تمھیں سمجھانا نہیں آتا تم بس یہ بتاؤ کہ میرے لیے باجی سے شادی کرو گے یا نہیں تمھیں بھی سارے محلے میں غلط سمجھا جاتا ہے شادی کر لی تو تمھاری بھی عزت بن جاۓ گی اور تمھیں کوئی کھانا بنا کر دینے والی بھی مل جاۓ گی جو تمھارے گھر کو سنبھالے گی
عدنان: یار حسن تمھاری باتیں ٹھیک ہیں مگر مجھے لوگوں کی کوئی پرواہ نہیں میں اپنی زندگی جی رہا ہوں اور میں نہیں چاہتا کہ میں دوبارا کسی لڑکی کو اپنی زندگی میں لاؤں اڈے پیار نہ دوں اور اس کی زندگی خراب کروں کیوں تم اپنی بہن کے دشمن بنے ہوۓ
حسن: میں دشمن نہیں ہوں ںلکے میں فائدہ کی بات کر رہا
عدنان حسن کی باتوں سے چڑنے لگا تھا کیونکہ وہ سمجھ نہیں پا رہا تھا کہ آخر اصل بات کیا ہے اسی لیے وہ بولا حسن تم ایسا کیوں نہیں کرتے کہ جس کے ساتھ تمھاری بہن کا تعلق ہے اور وہ کنواری نہیں رہی اسی سے شادی کیوں نہیں کروا دیتے
حسن: کاش ایسا ممکن ہوتا مگر ایسا کبھی نہیں ہو سکتا
عدنان اب حسن کی باتوں سے اکتا چکا تھا
عدنان: یار حسن مجھے تمھاری سمجھ نہیں آ رہی کیوں ممکن نہیں ہے جس نے اتنا کچھ تمھاری بہن کے ساتھ کر دیا اس سے شادی کرانے میں کیا مسلہ ہے اور یہی ایک بہترین حل ہے کہ بپ چاپ شادی کروا دو اور گھر کی بات گھر میں دفنا دو
حسن سمجھ گیا کہ جب تک وہ عدنان کو اپنا راز کھل کر نہیں بتاۓ گا عدنان اس کی بات نہیں سمجھ پاۓ گا
حسن: کیا کسی بہن کی شادی بھائی سے ہوئی ہے کبھی
عدنان حسن کی بات پہلے تو نا سمجھا وہ کچھ بولنے ہی والا تھا کہ اچانک چونک گیا اور پھر ایک حیران کن لہجے میں حسن کی طرف مڑ کر آنکھیں بھاڑے بولا
عدنان: کیا مطلب۔۔۔۔۔تم کہنا کیا چاہتے ہو
حسن: وہی جو تم سمجھ رہے ہو
عدنان : نہیں مجھے بتاؤ کیا کہنا چاہتے ہو تم کیا تم نے ہی اپنی بہن۔۔۔۔۔۔
حسن عدنان کی بات سن کر سر جھکاۓ خاموش ہو گیا وہیں عدنان بھی حسن کی خاموشی سمجھ گیا عدنان کی تو آنکھیں باہر نکل آئیں تھیں اور سہ بنا کچھ بوکے منہ پر ہاتھ رکھے پریشانی کے عالم میں دوسری طرف دیکھنے لگا
کافی دیر خاموشی رہی اور پھر حسن خاموشی کو توڑٹے بولا
حسن: عدنان پلیز تم نے مجھ سے وعدہ کیا کہ یہ بات تم کسی کو نہیں بتاؤ گے اور اسی لیے میں نے تم پر اعتماد کر کے اور اپنا سب سے اچھا دوست سمجھ کر تمھیں یہ بتایا حسن کو اب ڈر تھا کہ کہیں عدنان کو یہ سب غلط لگا ہو گا جو ظاہر سی بات تھی اور پھر وہ کسی کو بتا نہ دے وہیں عدنان سکتے میں چپ بیٹھا رہا
حسن: عدنان بولو۔۔۔۔
عدنان غصے میں کیا بولوں۔۔۔۔تم نے جو کیا اس کے بعد میں کچھ بولنے کے قابل نہیں رہا مجھے تو یقین نہیں ہو رہا
حسن پھر سے سر جھاۓ خاموش ہو گیا اور ایک طویل خاموشی کا پھر سے آغاز ہو گیا
عدنان کچھ دیر تو سکتے اور حیرانگی کے عالم میں خاموش بیٹھا رہا اور پھر بولا
عدنان: اوکے اب مجھے تم سب سچ سچ بتاؤ ڈیٹیل میں آخر یہ سب کیسے ہوا کیا تم نے بہن کے ساتھ زبردستی یہ سب کیا؟؟؟؟
حسن: سرجھاۓ نہیں۔۔۔۔
عدنان یہ سن کر اور حیران ہوا کیا مطلب۔۔۔۔مطلب نادیہ باجی کی بھی رضامندی شامل تھی؟؟؟
حسن: بنا کچھ بولے ہاں میں سر ہلا دیا
عدنان کی حیرانگی سے اس کا چہرا لال ہو چکا تھا اس میں اب کچھ بولنے یا سننے کی ہمت نہیں تھی وہیں حسن بھی ڈر کے مارے مرا جا رہا تھا کیونکہ اسے عدنان پر بھروسہ تو تھا مگر جو سب اس نے کیا اسے ڈر بھی تھا کہ وہ بہت غلط ہے معاشرتی اور مذہبی لحاظ سے اور کہیں عدنان غصے اور نفرت میں کسی کو بتا نا دے
عدنان: حسن ابھی تم جاؤ مجھے تھوڑا وقت دو ہم اس بارے پھر بات کریں گے مجھے ابھی کچھ نہیں سمجھ آ رہا
حسن: عدنان پلیز ایسا نہ۔کرو مجھے صرف تمھارا سہارا تھا تم ایسے منہ نہ موڑو اور تم نے وعدہ بھی کیا کہ تم کسی کو نہیں بتاؤ گے
عدنان: نہیں ۔۔۔نہیں بتا رہا میں کسی کو پریشان نہ ہو یہ بات مجھ تک رہے گی۔مگر ابھی میں کسی سوچ کے قابل نہیں رہا مجھے وقت دو میں پھر تمھیں کال کروں گا
حسن یہ سن کر تھوڑا حوصلے میں آیا کہ چلو عدنان اس کا راز کسی کو بتاۓ گا تو نہیں اور پھر اٹھ کر عدنان کو گکے لگا عدنان نے اسے زیادہ سیریس نا لیا اور گھر کو چل۔دیا۔
گھر پہنچ کر حسن پریشان پریشان سا تھا وہیں نادیہ الگ پریشان تھی اپنی۔شادی۔کی بات کو لے کر حسن کمرے میں چلا گیا اور نادیہ بھی اس کے پیچھے جا پہنچی
نادیہ: حسن کیا ہوا۔۔۔ کافی پریشان لگ رہے
حسن: باجی میں نے عدنان کو سب بتا دیا
یہ سن کر نادیہ۔کا دل منہ کو آ گیا
نادیہ: پھر کیا ہوا۔۔۔کیا۔کہا اس نے ۔۔۔وہ۔کسی۔کو۔ بتا نہ دے اس کا ری ایکشن کیسا تھا
حسن: باجی پریشان نہ ہوں وہ کسی کو نہیں بتاۓ گا
نادیہ: مگر اس نے کیا۔کہا
حسن: کچھ نہیں وہ بتاۓ کا سوچ کر
یہ سن کر نادیہ خاموش ہو گئی اور پھر منہ بناۓ کمرے سے نکل گئی حسن اور نادیہ کی پریشانی اب اور بڑھ چکی تھی کیونکہ ان کا راز اب کسی تیسرےکو پتا چل چکا تھا
سارا دن حسن عدنان کی کال کا انتظار کرتا رہا اور شام کو۔کال بھی کی مگر عدنان نے کوئی جواب نہ دیا جس سے اب حسن کی پریشانی اور بڑھنے لگی اور اسے وسوسوں نے آ گھیرا کے کہیں عدنان بھی اس کا ساتھ چھوڑ نا دے
رات کو حسن بستر پر لیٹا یہی سب سوچ رہا تھا پہلے وہ روز نادیہ کہ کمرے میں جاتا اور پھر دونو بہن بھائی جسمانی کھیل کھیلتے مگر آج حسن نا گیا وہ عدنان کی پریشانی میں ہی تھا وہیں نادیہ پریشان بھی تھی مگر اسے جو بھائی کی لت لگ چکی تھی اب اسے نیند نہیں آ رہی تھی وہ حسن کے انتظار میں تھی مگر حسن نہ گیا تو نادیہ خود اٹھ کر حسن کہ کمرے میں چلی گئی حسن نے جونہی نادیہ کو آتے دیکھا اٹھ بیٹھا نادیہ بھی حسن کے ساتھ جا بیٹھی اور بولی
نادیہ: کیا ہوا حسن۔۔۔ بس بہن کے لیے پیار اتنا ہی تھا
حسن: کیا مطلب باجی۔۔۔ایسی بات نہیں ہے
نادیہ: حسن کے ساتھ بستر میں لیٹتے بولی تو پھر کیا بات ہے
حسن نے بھی نادیہ۔کو۔باہوں میں بھر لیا اور بولا
بس باجی عدنان کے بارے سوچ رہا تھا
نادیہ: کیا سوچ رہے تھے
حسن: یہی کہ وہ کیا سوچ رہا ہو گا اس سب کے بعد اور وہ کیا فیصلہ کرے گا
نادیہ: ہاں پریشانی مجھے بھی ہے مگر مجھے اُمید ہے وہ تمھارا ساتھ دے گا
حسن اور نادیہ بار بار ایک دوسرے کو چوم رہے تھے اب حسن کا سر نادیہ کی گود میں تھا جو اسے کسی بچے کہ جیسے اپنی گود میں کیے چوم رہی تھی اور بولی
حسن پریشان نہ ہو عدنان تمھارا اچھا دوست ہے وہ تمھارا ساتھ دے گا اور پھر تھوڑا شرارتی انداز میں بولی ویسے بھی تم تو اس کی جان ہو اپنی جان کا خیال تو رکھے گا
یہ سن کر حسن بھی شرما اٹھا اور بولا باجی۔۔۔ آپ بھی نا
نادیہ: ہنستےہوۓ میں بھی کیا سچ تو بول رہی جس پر دونوں ہنسنے لگے حسن اور نادیہ کی پریشانی اب کم تھی دونو ایک دوسرے کو تسلی اور باتیں کر کے ہمت دے رہے تھے باتیں کرتے نہ جانے کب دونو وہیں سو گئے
اگلی صبح نادیہ کی آنکھ کھلی تو وہ حسن کی باہوں میں سو رہی تھی نادیہ حیران بھی ہوئی کہ نا جانے کب رات کو حسن کے ساتھ ہی سو گئی مگر یہ شکر تھا کہ نادیہ سب سے پہلے اٹھا کرتی تھی اور کوئی اسے دیکھ نہیں سکتا تھا نادیہ نے حسن کے چہرے پر چوما اور پھر اٹھ کر باہر آگئی نادیہ کو بھی اب حسن کی بری والی لت لگ چکی تھی اور کہتے ہیں کہ عورت جس سے ایک بار پیار کر لے پھر اسے کبھی چھوڑ نہیں پاتی وہیں حسن وہ پہلا مرد تھا جو نادیہ کی زندگی میں آیا تھا نادیہ اب حسن کے پیار میں پاگل تھی
دن ٹائم بھی حسن عدنان کو۔فون کرتا رہا مگر وہ کال نہیں اٹھا رہا تھا حسن کی بے چینی پڑھتی جا رہی تھی اب حسن نے سوچا کہ وہ خود جا کر عدنان کو ملتا ہے حسن جیسے ہی گھر سے نکلا اسے عدنان کی کال آ گئی حسن نے جلدی سے کال اٹھائی اور بولا
حسن: عدنان یار کہاں ہو میں کل سے کال کر رہا تمھیں
عدنان: ہاں یار میں کسی کام میں مصروف تھا کسی دوست کے ساتھ شہر گیا تھا رات وہیں تھا تھوڑی یر پہلے گھر ایا
حسن: اچھا ۔۔۔۔۔کیا میں گھر آ جاؤں
عدنان: یہ بھی کوئی پوچھنے والی بات ہے آ جاؤ
حسن: اوکے آ رہا اور پھر کال بند کر دی
حسن کو عدنان کے لہجے سے کچھ تسلی ہوئی اور پھر وہ جلدی جلدی عدنان کے گھر کی طرف بڑھنے لگا جو کہ اس کے گھر سے 5 منٹ کی دوری پر تھا
حسن عدنان کے گھر پہنچا تو عدنان کمرے میں بیٹھا ٹی وی دیکھ رہا تھا عدنان حسن کو ملا اور پھر حسن بھی وہی صوفے پر عدنان کے ساتھ بیٹھ گیا کچھ دیر دونو خاموش ٹی وی دیکھتے رہے اور پھر حسن بولا
حسن: عدنان کیا سوچا تم نے
یہ سن کر عدنان خاموش رہا اور پھر ٹی وی بند کرتے حسن کی جانب دیکھتے بولا
عدنان: دیکھو حسن یار میں نے اس بارے بہت سوچا۔۔۔ تم لوگوں نے جو کچھ بھی کیا وہ یقیناً غلط ہے مگر یہ بھی سچ ہے کہ انسان کئی بار بہت سی غلط چیزوں میں بھی پڑ جاتا ہے جسے وہ چاہتے ہوۓ بھی نہیں چھوڑ پاتا جیسا کہ میں لڑکوں کی عادت میں مجبور ہو میں اس سب کو نہیں چھوڑ سکتا مجھے اسی میں مزہ آتا ہے
تم لوگوں نے جو۔کیا ہے وہ ہمارے معاشرے اور مذہب کے بلکل خلاف ہے مگر تم میرے دوست ہو اور مجھے اپنے تمام دوستوں میں سب سے زیادہ تم پیارے ہو
حسن: تو پھر اپنے اس پیارے دوست کا ساتھ دو۔۔۔ کر لو باجی سے شادی میری بہنوئی بن جاؤ
عدنان: حسن ابھی بھی میرے دماغ میں بہت سے سوالات ہیں جن نے جواب مجھے چاہیے تاکہ میں ایک فیصلہ کر پاؤں
حسن: تو پوچھو کیا سوال ہیں اب جب کہ میں اتنا بڑا راز تم کو بتا چکا اب جو بھی سوال ہیں سب جے جواب دوں گا
عدنان: ٹھیک ہے تو مجھے یہ بتاؤ یہ تم اس سب میں کیوں اور کیسے پڑے۔۔۔اور باجی نادیہ تو انتہائی شریف اور نیک تھی وہ ایسی کسی بن گئی
حسن نے عدنان کی بات سن کر گہرا سانس لیا اور پھر پہلے دن کی محبت سے لے کر آج تک باجی اور اپنے بیچ سب بتا دیا
عدنان بڑے غور سے سب سنتا رہا اور پھر بولا
عدنان: مطلب اب تم دونو روز جسمانی تعلق بناتے ہو ابھی تک
حسن: ہاں
عدنان: اور اس کی شادی مجھ سے ہو گئی تو اس جے بعد
حسن کو اس سوال کی امید نہ تھی عدنان کے اس سوال پر وہ سوچ میں پڑ کیا کہ آخر کیا بوکے کیونکہ باجی کو تو وہ اب چھوڑنے سے رہا تھا
عدنان بھی حسن کی حالت سمجھ گیا اور بولا
حسن دیکھو تم مجھے اچھے سے جانتے ہو کچھ بھی تم سے نہیں چھپا ہوا مجھے لڑکوں کا شوق ہے اس کا یہ مطلب نہیں کے میں لڑکیوں کے قریب بھی نہیں جاتا ہاں مگر ایک عورت روز اپنے شوہر سے پیار اور کیئر کی امید رکھتی ہے جو میں نہیں دے پاؤں گا اور میں نہیں چاہتا کہ تمھاری بہن اس سب میں پڑے اگر شادی کہ بعد بھی تم خود اپنی بہن کو سمںھالو تو ٹھیک ہے
یہ سن کر حسن کی تو مانو عید ہو گئی حسن بھی تو یہی چاہتا تھا اور پھر فوراً بولا ہاں منظور ہے میں باجی کو پیار سب دوں گا
عدنان: کیا تمھاری بہن کو پتا ہے کہ تم نے اس سب کے بارے بات کی مجھ سے
حسن: ہاں اسے پتا ہے
عدنان: کیا اسے یہ بھی پتا ہے جو ہمارے درمیان ہوا
حسن: ہاں سب پتا ہے
عدنان: اور اسے یہ بھی پتا ہے کہ میں لونڈے باز ہوں؟؟؟
حسن: یہ بات محلے میں کون نہیں جانتا اسے بھی پتا ہے میں نے بتایا ہے
عدنان: اور پھر بھی وہ راضی ہے مجھ سے شادی کے لیے
حسن: ہاں راضی ہے اور میرا بھی دلی خواہش ہے کہ میری بہن تمھاری بنے
عدنان اب تھوڑا مطمئن ہو گیا اور پھر کچھ سوچتے ہوۓ بولا
ٹھیک ہے مگر اب شادی کی بات کیسے ہو گی مطلب تم نے بتایا کہ تمھارے گھر رشتہ آ چکا ہے
حسن: ہاں مگر ابھی وہ لوگ دیکھنے نہیں آۓ اور وہ مسلہ۔نہیں ہے ابو سے بات میں بھی کر لوں گا بس تم کسی طرح رشتہ بھیج کر بات شروع کرو
عدنان: ہاں مگر یار میرا کون ہے جو رشتہ لے کر آۓ گا نا باپ نا ماں اکیلا ہی ہوں
حسن بھی یہ سن کر سوچ میں پڑ گیا اور بولا چلو اس بارے سوچتے ہیں مگر شکریہ کہ تم نے میرا ساتھ دیا اور اب مکر مت جانا
عدنان: نہیں میری جان میں نہیں مکرتا مگر شادی کہ بعد کیا ہمارا رشتہ ویسا ہی رہے گا نا
حسن: ہاں ویسا ہی رہے گا میرے بہنوئی
یہ سن کر دونو مسکرا دیے حسن کچھ دیر عدنان کے پاس بیٹھا رہا عدنان حسن کو باہوں میں لیے پیار دیتا رہا اور پھر حسن اٹھا
حسن: عدنان اب میں چلتا ہوں اور باجی نادیہ کو جا کر بتاتا ہوں کہ میں نے اس کے کیے شوہر ڈھونڈ لیا ہاہاہاہا
عدنان: ہاں ہاں جاؤ بہن چود ہاہاہاہا
حسن جلدی سے گھر کی طرف گیا اور گھر جا کر دیکھا تو نادیہ باہر بیٹھی برتن دھو رہی تھی حسن نے اندر آنے کا اشارہ کیا اور کمرے میں چلا گیا
حسن کے چہرے پر مسکراہٹ اور خوشی دیکھ نادیہ بھی جلدی سے کمرے میں جا پہنچی نادیہ جونہی کمرے میں داخل ہوئی حسن نے اسے دبوچ لیا اور اس کی گانڈ کو اپنے ہاتھوں سے سہلاتے چومتے بولا
حسن: باجی مبارک ہو عدنان مان گیا ہے
یہ سن کر نادیہ بھی خوشی سے جھوم اٹھی
نادیہ: سچ بتاؤ ۔۔۔۔۔
حسن: سچ بول رہا باجی
نادیہ یہ سن کر حسن کو پیار سے چومنے لگی اور پھر بوکی
نادیہ: اچھا باقی بات رات کو کریں گے ابھی امی باہر ہیں اور یہ کہہ کر حسن سے چھڑا کر باہر جانے لگی
حسن نے نادیہ کے داہنے ممے کو ہاتھ میں پکڑ کر مسلا اور پھر جانے دیا
نادیہ:اففففگ بےشرم اور پھر مسکرا کر باہر چلی گئی
دن جیسے تیسے کر کے گزرا دونو رات کے انتظار میں بےتاب تھے
رات ہوتے ہی حسن باجی کے کمرے میں جا پہنچا
باجی نادیہ بھی حسن کے انتظار میں تھی حسن کو آتے دیکھ اپنی ٹانگیں کھول دی حسن بھی باجی کے اوپر اپنا لن اپن۔کی پھدی پر فٹ کر کے لیٹ گیا اور ان کے چہرے اور ممو سے کھیلنے اور چومنے لگا
نادیہ: اب بتاؤ تمھارے دوست نے کیا کہا تم سے
حسن: باجی میں نے آپ کو بتایا تھا نا کہ وہ لونڈے باز ہے تو اسے یہی پریشانی تھی کہ کہیں اپ کو برا نا لگے پر میں نے اسے بتا دیا کہ باجی کو مسلہ نہیں ہے تو وہ راضی ہو گیا
بس اب ایک ہی مسلہ۔ہے
نادیہ: کیسا مسلہ
حسن: نادیہ کی پھری پر سوپر لیٹ کر ان کے مموں کے چوچیوں ڈے کھیلتے ہوۓ بولا اب ابو اور امی کو کسی طرح راضی کرنا ہے رشتے کے لیے
نادیہ: ہاں مگر تم اپنے دوست کو کہو نا کہ وہ اپنی فیملی میں سے کسی کو بھیج دے ہمارے گھر
حسن: باجی آپ جانتی تو ہیں عدنان کو اس کا کون ہے آگے پیچھے ماں نا باپ نا بہن بھائی
نادیہ: ہاں مگر کوئی تو ہو گا اس کا رشتہ دار وغیرہ یا محلے کا کوئی اور بااثر آدمی جو ابو سے آ کر بات کرے
حسن: ہاں وہی سوچ رہا چلو کوئی نا کوئی حل نکال لیں گے
0 تبصرے