گھر سے آوارگی تک ۔۔۔۔۔۔۔
رائیٹر کنیز فاطمہ
پہلی قسط
۔یہ کہانی ایک عزتدار گھرانے کی ہے جو پنجاب میں رہتا ہے کہانی ایک ماں بیٹے کی ہے جو مقدس رشتے سے نکل گناہ کے راستے پر چل پڑے بیٹے کا نام قیصرہےہائیاسکول میں پڑھتا ہے 15سال کا ایک خوبصورت لڑکا ہے ماں اور باپ کا لاڈلاہے لیکن باپ زیادہ لاڈ پیار دیتا ہے جبکے ماں تھوڑی بوھت سختی بھی کرتی ہے .باپ ایک کارحانے میں کام کرتا ہے اور ماں ایک گھریلو عورت ہے ماں کا نام عذراہے 40سال کیخوبصورت عورت ہے بھرا ہوا چوڑا سینہ 38 کے کسسے ہویے مممےبھرا بھرا ہوا جسم لمبا قد گورا رنگ اس کے حسن کو چار چاند لگا دیتے ہیں ۔عذرا تھوڑا سا بھی تیز چلے تو اسکے مممے اوپر نیچے ھلنے لگتے جسکی وجہ عذرا ہر وقت اپنے مممے ٹائٹ برا میں کس کے رکھتی تھی باہر جاتی تو کئ مرد اسکی چھاتیوں کو گھورتے جو عام عورتوں کی طرح عذرا کو بھی اچھا لگتا تھا حالاں کے کردار کےلحاظسےعذرا شریف اور اچھی عورت تھی اس نے کبھی بھی کسی دوسرے مرد کے بارے میں نی سوچا اسکا شوہر ہر طرح سے اسے خوش رکھ رہا تھا اس عمر میں بھی ہفتے میں ایک دو بار عذرا کی چودائ ہو جاتی تھی وہ ہر لحاظ سے خوشتھی اسکاشوہر اوربیٹا اسکی کل کائنات تھے عذرا کی ایک ھی بہن تھی ساجدہ وہ بھی شادی شدہ اور دو بچیوں کی ماں ہے ساجدہ دوسرے شہر میں رہتی ہے لیکن تی جاتی رہتی تھی ساجدہ بھی عذرا کی طرح خوبصورت اور پر کشش خاتون تھی جس کی عمر38 سال تھی ساجدہ کے مممے اتنے کسے تو نئی تھے لیکن اپنی بہن کی طرح وو بھی برا میں کس کے رکھتی تھی وہ بھی لمبھی گوری بھرے ہویے جسم کیمالک تھیلیکن ساجدہکی تشریف مطلب گانڈ عذرا سے بڑی تھی جب ساجدہ چلتی تو اسکی گانڈ آگے پیچھے ہلنے لگتی جس کا اندازہ خود ساجدہ کو بھی تھا اسکو پتا تھا مرد اسکی تشریف کو تاڑتے ہیں جو اسے بھی اچھا لگتا تھا لیکن کردار کے معاملے میںمیں وہ بھیعذرا جیسی تھیعذرا کے ساتھ اسکا بوھت پیار تھا انکا ایک ھی بھائی تھا جو اپنی فیملی کے ساتھ کینیڈا رہتا تھا تو آ جا کدونں بہنیں ھی تھیں جو آپس میں ایک دوسرے کا دکھ سکھ جانتی تھیں۔ساجدہ کا قیصر سے بھی بوھت پیار تھا اور خود قیصر کو بھی اپنی خالہ بوھت پسند تھی کیوں ساجدہ کھلے دل کی مالک تھی جبکے عذرا کنجوس اور سگھڑ عورت تھی یہی وجہ تھیقیصرشروع سےاپنی خالہ کو بوھت پیار عزت اور پسند کرتا تھا حالاں کے عذرا اپنے اکلوتے بیٹے سے بوھت پیار کرتی تھی جب کے ساجدہ بھی قیصر کو بوھت پیار اور خوش رکھتی تھی ۔جب گرمیوں کی چھٹیوں میں جب ساجدہ اپنی بیٹیوں کے ساتھ آتی توقیصر بوھتخوش ہوتا اسکیخالہ اور کزن کو دیکھ کے ساجدہ کا بیٹا نئی تھا ووہ بھی کہیں نہ کہیں اپنے بیٹے کو قیصر میں ڈھونھتی جو کبھی کھی عذرا کو ناگوار گزرتا لیکن وہ بھی عورت تھی عورت کا دکھ سمجھتی تھی عذرا کی بیٹی نہیں تھی اس لئے وہ بھی ساجدہ کی بیٹیوں سے بوھت پیار کرتی تھی ایک بیٹی 13 سال کی اور دوسری 10 سال کی تھی لیکن قیصر کے ساتھانکی بوھت بنتیتھی وہاسے بھائی کہتی تھیں اس عمر میں وہ اسے اپنا سگا بھائی ھی سمجھتی تھیں خیر عذرا اور ساجدہ نے آج تک قیصر کو بچہ ھی سمجھا تھا حالاں کے وہ 16 سال میں داخل ہونے والا تھا عذرا شروع سے ھی اسکے سامنے نہالیتی کپڑے تبدیل کرلیتی عام عورتوںکی طرح وہ بھی یہی سمجھتی تھی کے اسکا اپنے بیٹے سے کوئی پردہ نی ،قیصر نے شروع سے ھی اپنی ماں اور خالہ کو نہاتے ،کپڑے تبدیل کرتے ،،بارش میں نہاتے ،رفع حاجت کرتے ،ہر طرح سے دونوں کو کئی بار دیکھا تھا لیکن یہ سب ماضی تھا اب جوانی اپنا اثر دکھانے پے آ گئی تھی ہائی اسکول میں اسکے کسی دوست کے شہری کزن سے ایک سیکسیرسالہ پنچا کیونکے اسوقت انٹرنیٹ نہیں تھا خیر باری باری پوری کلاس کے پڑھنے کے بعد رسالہ قیصر تک پنچا رسالہ کیا تھا رسالہ کیا تھا بربادی کا پیغام تھا خیر قیصر گھر پنچا اور امی کو دیکھا جو کپڑے دھو رہی تھیں اسنے سلام کیا اور بتایا کےآپ کپڑے دھو لیں میںاپنے کمرے میں ہوں خالدہ نے محبت سے اپنے بیٹے کو دیکھا اور کہا ٹھیک ہے کمرے میں جاؤ اور کپڑے بدلو میں کپڑے ختکر کے تمہں کھانا دیتی ہوں لیکن خالدہ کو پتا نی تھا آج اسکے بیٹے کی بھوک بدلنے والی ہے خیر قیصر اپنے کمرے کی کنڈی لگا کی بیڈ پے رسالہ پڑھنے لگا ،رسالے میں فیملی سیکس کی جھوٹی کہانیاں اور ننگی تصویریں تھی جو قیصر کے کچے اوربچگانہ ذہن پےگہرے اثر چھوڑ گئیں مامی بھانجھے ،خالہ بھانجے ،بھائی بہن اور آخر میں ماں بیٹے کی چودای کی کہانیاں پڑھ کر قیصر کی دھڑکنیں تیز جسم پسینے سے شرابور لن اکڑ کر لوہے کا راڈ بن گیا اس کے دل کی دنیا بدل چکی تھیاب اسے سمجھ ایجو بھی رسالہ پڑھ کے آتا وہ صبح شرمندہ کیوں ہوتا لیکن قیصر بجاے شرمانے کے گھبرا رہا تھا ،رسالے کے بیہودہ اوجھوٹی کہانیں کے جھوٹے مجموے نے اسے گھبرانے پر مجبور کر دیا لیکن شیطان اور رسالے بنانے والے کا مقصد پورا ہو چکا تھا اس کے ذہن میں صرف ماں بیٹے اور خالہ بھانجے کی کہانیوں کا منظر چل رہا تھا خیر ہوش میں آنے تک اسکی ماں دروازے پردستک دےچکی تھی اس نے جلدی سے رسالہ نیچے چھپایا اور اپنا خلیہ ٹھیک کیا خیر اس نے دروازہ کھولا سامنے خالدہ کھڑی تھی اور کہنے لگی آ جاؤ کھانا کھاتے ہیں مجھے بھی بھوک لگی ہے یہ کہ کر خالدہ مر گئی لیکن اس نے نوٹ کر لیاکے اسکا بیٹااس سے نظریں نی ملا رہا اس نے اس خیال کو جھٹکا اور کچن میں چلی گئی قیصر نے اپنی ماں سے نظریں تو نہیں ملائیں لکن خالدہ کے مڑنے اس نے اپنی ماں کی کمر اور تشریف کی طرف دیکھا جو کے پہلی بار تھا اسکی ماں کی قمیض اسکی کمر سے چمٹی ہوئی تھی.
0 تبصرے