گھر سے آوارگی تک ۔۔۔۔
۔قسط 2 ۔۔۔۔۔۔۔۔
خالدہ کے مڑنے پر قیصر نے اپنی ماں کی کمر دیکھی جو پسینے اور پانی کی وجہ بھیگ کر خالدہ کے گورے اور شفاف جسم سے چپک چکی تھی جس کی وجہ سے خالدہ کی پوری کمر اور اسکا خاکی رنگ کا برا صاف نظر آ رہا تھا کمر سے نیچے شلوار کے اوپر قمیض ہونے کی وجہ سے خالدہ کی گانڈ نمایاں نی تھی لیکن اس نے اپنی شلوار اوپر چڑائ ہوئی تھی جس کی وجہ سے اسکی کالی شلوار خالدہ کی ٹانگوں سے چپکی ہوئی تھی قیصر نے اپنے ماں کے خوبصورت جسم کو پہلی بار ایک مرد کی نظر سے دیکھا حالاں کے یہ جسم اسکی سگی ماں کا تھا ننگی کمر اور اور نیچے سے شلوار اوپر ہونے کی وجہ سے خالدہ کی ٹانگیں بھی تھوڑی ننگی تھی جو سفید اور بالوں سے پاک تھیں یہ منظر دیکھ کر قیصر بوہت آگے کا منظر دیکھنے لگا خیر اسکی ماں کی آواز نے اسے خیالوں کی دنیا سے نکالا اور کہا کے آجاؤ میں تمہارا انتظار کر رہی ہوں ادھر خالدہ دنیا سے بےنیاز اپنے بیٹے کا انتظار کر رہی تھی اسکا لباس کسی غیر مرد کے لئے نامناسب تھا لیکن اپنے بیٹے کے سامنے اس لباس میں بھی وہ مطمئن تھی خیر قیصر کھانے کے ٹیبل پے آ گیا اسکی ماں بیٹھی ہوئی تھی اس نے ایک نظر اپنی ماں کو دیکھا اور دیکھتا ہی رہ گیا اسکی ماں نے دونوں کوہنیاں ٹیبل پہ رکھی ہوئی تھی جسکی وجہ اسکا سینہ دبا ہوا تھا اور اسکے کھلے گلے سے اسکے مممے اوپر ہونے کی وجہ سے کافی زیادہ ابھرے ہویے تھے گلہ کھلا ہونے کی وجہ سے اسکے 30 فیصد مممے اسکے بیٹے کے سامنے دعوت گناہ دے رہے تھے جو اسکا اپنا بیٹا اوپر کھڑا ہو کے اپنی سگی ماں کے مممے نیچے تک دیکھنے کی کوشش کر رہا تھا قیصر کی پہلی بار احساس ہوا کے اسکی ماں کتنی خوبصورت عورت ہے آج اسکے دیکھنے سوچنے اور سمجھنے کا انداز بدل چکا تھا اسے اپنی ماں میں ایک عورت اور بوہت خوبصورت عورت نظر آ رہی تھی خالدہ نے اوپر اپنے بیٹے کی طرف دیکھا جو اسکے جسم کی سیکسی لکیر بڑی دلچسپی سے دیکھ رہا تھا ماں کے دیکھنے پر اس نے مسکرا کر اپنی ماں کو دیکھا جو خود بھی اپنے بیٹے کو دیکھ کر مسکرا پڑی قیصر بیٹھ گیا اور خالدہ بھی سیدھی ہو گئی کھانا کھانے کے درمیان ادھر ادھر کی باتیں ہوئیں کھانا کھانے کے بعد خالدہ دوبارہ کپڑے دھونے چلی گئی اور قیصر سونے کے لئے اپنے کمرے میں آ گیا آنے کے بعد اس نے دوبارہ سے اپنی ماں کے خوبصورت سراپے کے بارے سوچنا شروع کیا وہ گناہ لذت شرمندگی اور جذبات کی عجیب کشمکش میں تھا اور یہ پہلی بار تھا جب وہ اپنی ماں کے بارے میں ایسے سوچ رہا تھا لیکن اسے اچھا لگ رہا تھا اب وہ اس بارے میں اپنے دوستوں سے بات کرنا چاہتا تھا لیکن اسکا ذہن اپنی ماں اور خالہ کے لئے بدل چکا تھا دوسرے دن کلاس میں اس نے اپنے بیسٹ فرینڈ کو بتایا کے کیسے اس نے سب کہانیاں پڑھئ اور اسپے انکا کیا اثر ہوا اسکے دوست کا بھی یہی حال تھا دونوں کے خیالات اپنی ماؤں کے بارے میں ایک جیسے تھے اسکے دوست کی ماں کا نام طاہرہ تھا وہ بھی خالدہ کی عمر کی تھی جسمانی لحاظ سے وہ بھی خوبصورت تھی لیکن اس کے مممے خالدہ سے چھوٹے تھے قیصر نے کئی بار طاہرہ کو دیکھا تھا لیکن آج سوچ کے ہی اسکا لن سخت ہو گیا خیر دونوں نے اپنی ماں کے بارے میں ایک دوسرے کو بتایا ،طے یہ پایا کے دونوں اپنی ماؤں کو زیادہ سے زیادہ دیکھنے کی کوشش کریں گے اور صبح ایک دوسرے کو بتائیں گے دو جوان لڑکے تباہی کے راستے کو چننے کا فیصلہ کر چکے تھے قیصر اسکول سے گھر آیا تو اسکی ماں نہا رہی تھی اسنے ادھر سے ہی قیصر کو نہانے کا کہا یہ سن کر قیصر کو لگا جیسے اسکی مراد بھر آئ ہو وہ بھاگ کے گیا اسکی ماں کالی برا کے اوپر قمیض پہن رہی تھی قیصر ادھر ہی کھڑے کا کھڑا رہ گیا اسکی ماں نے شلوار پہنی ہوئی تھی اسنے اپنے بیٹے کو دیکھ کے کہا آجاؤ تمہیں نہلا دیتی ہوں قیصر نے کہا امی آپ جاو میں خود نہا لیتا اسکی وجہ یہ تھی کے قیصر کا لن کھڑا تھا جو اسے اپنی شلوار کے زاربند میں دبایا ہوا تھا خیر خالدہ نہا کے باہر نکل آئی قیصر اپنی ماں کا ننگا گورا جسم کالی برا میں دیکھ کر گرم ہو چکا تھا اس نے لن ہاتھ میں لے کے مسلنا شرو کر دیا جو لذت کے اس مقام پہ لے گیا جہاں سے کوئی واپس نہیں آنا چاہتا اس نے پہلی اپنے ہاتھوں سے اپنی منی نکالی اسکو وہ سرور ملا جسے لفظوں میں بیان کرنا ممکن نہیں اور وہ بھی اپنی سگی ماں کو سوچ کے یہ وہ پہلا دروازہ تھا جو آج اسنے پار کر لیا یہیں سے وہ آگے گناہ کے تنگ و تاریک گھڑے میں اترنے والا تھا نہانے اور اپنی ماں کے نام کی مٹھ مارنے کے بعد وہ کافی حد تک ٹھنڈا ہو چکا تھا لیکن منزلیں ابھی کافی تھیں باہر آنے کے بعد اسنے کھانا کھایا لیکن آج اسکی ماں کے مممے کی لکیر نظر نہیں آ رہی تھی کھانے کے بعد اپنے کمرے میں آ لیٹنے کے بعد وہ سوچنے لگا آج سے پہلے اس نے جتنے بھی منظر دیکھے وہ اسکی آنکھوں کے سامنے چلنے لگی اسے سب سے زیادہ وہ منظر یاد آیا جب اسکی ماں خالہ اور وہ سب چھت پہ ننگے بارش میں نہا رہے تھی اسکی ماں خالدہ کالے برا اور شلوار میں تھی جب کے اسکی خالہ ساجدہ ساری ننگی تھی اپنے ماں اور خالہ کے ننگے جسموں کا سوچ کر وہ دوبارہ گرم ہو گیا اس نے لن کو پکڑ لیا لیکن لن کو پکڑتے ہی اسے اپنی ماں کے جسم کے نظارے یاد آنے لگے جو آج تک اسکی ماں اسکو بچا سمجھ کر دکھاتی آئ تھی۔اسنے ہر منظر کو بار بار یاد کیا جیسے وہ چاہتا ہو کے یہ نظارے دوبارہ ملیں انہی سوچوں میں وہ سو گیا سو کے اٹھنے کے بعد اسے سب سے زیادہ خواہش اپنی ماں کو دیکھنے کی ہوئی جو کچن میں چائے بنا رہی تھی موں دھونے کے بعد وہ سیدھا کچن میں گیا جہاں اسکی ماں اسکی طرف اپنی کمر کر کے کھڑی تھی اس نے بڑے غور سے اپنی ماں کی کمر کو دیکھا جو ایک نیلی قمیض میں تھی لیکن برا نظر آ رہی تھی گرمیوں کا موسم تھا اور خالدہ بھی کچھ خاص خیال نی کرتی تھی اپنے لباس کا خیر قیصر نے اپنی ماں کو سلام کیا بیٹھ گیا خالدہ نے اسے دیکھا اور چائے کا پوچھا جو وہ پہلے ہی چائے کے چکر میں اپنی ماں کو تاڑنے آیا تھا خالدہ نے اسے چائے دی تو اس نے اپنی ماں کا سینہ دیکھا
0 تبصرے