اسلام علیکم کہانیاں لکھنا میرا شوق ہے اور خاص طور پر انسیسٹ گھریلو کہانیاں لکھنا میرا پسندیدہ موضوع ہے
یہ کہانی بھی میری اور باجی کے درمیان رشتے کی ہے جس میں لونڈے بازی سے لے کر بہن کی چدائی تک سب ہے اس کہانی میں کچھ باتیں سچ ہیں اور کچھ کہانی کو مزے دار بنانے کے لیے شامل کی گئی ہیں اس کہانی میں حسن یعنی میں اور نادیہ میری باجی مین رول ہیں
کہانی پڑھ کر اپنی راۓ ضرور دیجیۓ گا
سو ٹائم ضائع نہ کیے سٹوری پر چلتے ہیں
سردیوں کی ایک ٹھنڈی شام تھی رات کا ہلکا اندھیرا روشنی پر غلبہ پا رہا تھا اور ٹھنڈی ہوا سردیوں کی اس شام کو مزید ٹھنڈا اور گہرا بنا رہی تھی سڑک کے پار بنے فٹ باتھ پر کمر پر بیگ باندھے حسن تیز قدموں سے اپنے گھر کی جانب پڑھ رھا تھا جو کہ آج اپنی ٹیوشن سے لیٹ گھر واپس جا رہا تھا اور اسے اندازہ تھا کہ گھر میں اس کی بوڑھی ماں اور بڑی باجی نادیہ اس کی فکر میں ہو گی حسن ایک 19 سالہ لڑکا تھا قد کاٹھ اور جسمامت میں تھوڑا پتلا سا تھا جس کی وجہ سے وہ عمر سے بھی تھوڑا چھوٹا لگتا تھا حسن دہم کلاس کا طالب علم تھا اور سکول سے واپسی پر ٹیوشن پڑھ کر گھر جاتا تھا وہیں
حسن کی ماں گھر میں الگ پریشان چارپائی پر بیٹھی دروازے پر ٹکٹکی باندھے حسن کے انتطار میں تھی اور بار بار نادیہ سے حسن کا پوچھ رہی تھی وہیں نادیہ کچن میں کھڑی کھانا پکانے میں مصروف تھی نادیہ حسن کی بڑی بہن تھی عمر 28 سال تھی نادیہ قد کاٹھ میں لمبی اور جسمامت میں بھری ہوتی تھی انتہا درجے کی خوبصورت اور بھرے جسم کی مالک تھی نادیہ مشکل سے ہی دس جماعتیں پڑھ پائی تھی اور پھر گھر کی پابندیوں اور رواجوں کی وجہ سے اسے سکول چھوڑنا پڑا کیونکہ حسن کا خاندان تھوڑا مزہبی اور بچیوں کی زیادہ پڑھائی کے خلاف تھا
کچھ ہی دیر بعد حسن گھر میں داخل ہوتا ہے اس کی ماں اسے دیکھ کر سکون کا سانس لیتی ہے اور حسن ماں کے پاس جا کر بیٹھ جاتا ہے حسن کی ماں اسے پیار کرتے پوچھنے لگتی ہیں کہ آج دیر کر دی جس پر حسن بتاتا ہے کہ آج ماسٹر جی نے دیر سے چھٹی دی
ماں: ماسٹر کو بولا کرو نا کہ جلدی سبق پڑھا دیا کریں شام کو زیادہ دیر نہ کیا کریں
حسن: امی جان وہ ماسٹر ہیں کسی کی نہیں سنتے
حسن اور اس کی ماں کی باتیں چل رہی ہوتی ہیں کہ نادیہ کمرے میں داخل ہوتی ہے ماں کو چاۓ دیتے ہوۓ حسن سے کہتی ہے
آج پھر لیٹ۔۔۔
حسن: باجی ماسٹر نے دیر سے چھٹی دی تھی
نادیہ: ماسٹر ںے دیر سے چھٹی دی یا تم خود ہی دوستوں کے ساتھ آوارہ گردیاں کرتے رہے
حسن باجی کی بات سن کر مسکرا دیا اور بولا نہیں باجی ماسٹر نے ہی دیر سے چھٹی دی
تبھی نادیہ نے حسن کو دیکھا اور ہنستے بولی اچھا جھوٹے انسان اب اٹھو اور جا کر بیگ کمرے میں رکھو اور کپڑے چینج کرو
حسن جلدی سے اٹھتا ہے اور اپنے کمرے میں چلا جاتا ہے وہیں نادیہ بھی اٹھ کر کچن میں چل پڑھتی ہے
حسن کا گھر چھوٹا اور خوبصورت سا تھا جس میں 3 کمرے کچن باتھروم اور آگے تھوڑا سا صحن تھا
پہلا کمرہ حسن کے ابو اور امی کا تھا دوسرا کمرا سامان اور مہمانوں کے لیے منتخب تھا اور اس سے اگلا کمرا حسن اور اس کی باجی کا تھا حسن کے ابو ریٹائرڈ آرمی ملازم تھے اور آج کل اپنے کھیتوں میں کام کرتے تھے اور یہی ان کی روزی روٹی کا وصیلہ تھا حسن کی فیملی مڈل کلاس اور مذہبی ٹائپ کی تھی حسن کے ابو بھی سخت مزاج اور سلجھے ہوۓ انسان تھے
حسن کپڑے چینج کر کے ڈراینگ روم میں آ کر بیٹھ جاتا ہے جہاں اس کی ماں چاۓ پیتے ٹی وی دیکھ رہی ہوتی ہے حسن بھی امی کے ساتھ بیٹھ کر ٹی وی دیکھنے لگتا ہے کبھ دیر گزرتی ہے تو حسن کے ابو بھی گھر داخل ہوتے ہیں حسن ابو کو سلام کرتا ہے اور نادیہ بھی کچن سے نکل کر سر پر ڈوبٹا سیدھا کر کے باپ کو سلام کرتی ہے اور ابو کہ ہاتھ سے سامان لے کر کچن میں رکھنے چلی جاتے ہیں حسن کے ابو بھی۔ وہیں بیٹھ جاتے ہیں اور روز مرہ کی باتیں کرنے لگتے ہیں
کچھ دیر بعد باجی نادیہ کھنا لگاتی ہیں اور سب مل کر کھاتے اور ٹی وہ دیکھتے ہیں اور پھر تقریباً 8 بجے کے قریب سب سونے اپنے اپنے کمروں میں چلے جاتے ہیں حسن اور نادیہ بھی اپنے کمرے میں آتے ہیں اور سونے لگتے ہیں حسن کا کمرہ چھوٹا مگر خوبصورت تھا کمرے کی دائننی دیوار پر ایک شیشے کی کھڑکی تھی جو صحنِ کی جانب کھلتی تھی اور کمرے کے درمیان دو سنگل بیڈ تھے جس میں ایک حسن کا اور دوسرا اس کی باجی نادیہ کا تھا
حسن اپنے بستر پر جاتا ہے اور رضائی لپیٹ کر لیٹ جاتا ہے اور نادیہ بھی ساتھ اپنے بیڈ کر بستر میں گھس کر سونے لگتی ہے کمرے کی لائٹ آف ہوتی ہے مگر باہر صحن میں جلنے والی لائیٹ کی روشنی گھڑی سے ہلکی اندر آنے کی وجہ سے کمرے میں ہلکی روشنی ہوتی ہے
حسن: باجی آج تو کچھ زیادہ سردی ہے
نادیہ: ہاں بھائی آج تو موسم صحیح والا ٹھنڈا ہے میرے تو ٹھنڈ سے پاؤں بھی جم گئے
حسن: ہلکی مسکراہٹ دیتے ہوۓ باجی میرے تو پورے جسم کی کلفی بنی پڑی ہے
نادیہ حسن کی یہ بات سن کر بولتی ہے کہ ٹیوشن سے واپسی پر سردی میں آوارہ گردیاں نہیں کرنا تھی نا تو اتنی سردی نہ لگتی
حسن باجی کی یہ ںات سن کر مسکرایا اور بولا باجی آپ کو سب پتا ہوتا ہے پھر امی کے سامنے زکر کرنے کی کیا ضرورت تھی
نادیہ: اچھا ہے نا میری تو سنتے ہو نہیں تم امی کی بیستی کا شاید اثر ہو جاۓ
حسن: ایک تو باجی آپ بھی میری دوسری ماں بنی رہتی ہیں تھوڑا تو بھائی کا بھی خیال کر لیا کریں
زینب: ہاں بہت اچھے سے خیال کروں گی اچھا اب چپ کر کے سو جاؤ خود کو دوپہر تک سوتے ہو مجھے تو جلدی اٹھنا ہوتا ہے
حسن باجی کی بات سن کر مسکرتا ہے اور پھر کروٹ بدل کر سونے لگتا ہے
حسن اور نادیہ کی روز سونے سے پہلے ایسے باتیں کرنا نارمل روٹئںن تھی کیونکہ حسن اور نادیہ ہی گھر میں ہم عمر تھے تو دونو کی خاصی بنتی تھی
صبح حسن کی آنکھ کھلتے ہی روز کہ جیسے اس کی نظر بہن پر پڑی جو اسے سرھانے کھڑی جگانے کی پوری کوشش کر رہی تھی
حسن اٹھ بھی جاؤ دیکھو 7 بج گئے آج سکول سے پھر لیٹ ہو جاؤ گے
حسن کہ لیے صبح اٹھنا تو سب سے ںڑا جہاد تھا حسن نے آدھی آنکھیں کھولی اور باجی نادیہ کو دیکھتے بولا اٹھ گیا ہوں میری ماں صبح صبح تنگ کرنے آ جاتی ہو
نادیہ حسن کی ںات سن کر کمرے سے باہر کی جانب چلتے بولی ہاں اور جو سکول سے روز لیٹ ہو جاتے ہو منہوس اپنا نقصان ہے اب جلدی سے اٹھ کر باہر آؤ میں ناشتہ لگا رہی اور یہ کہتے ہوۓ نادیہ کمرے سے نکل کر کچن میں چلی جاتی ہے
حسن بھی نا چاہتے ہوۓ گرم بستر سے نکلتا ہے اور واش روم میں اپنا یونیفارم اٹھاۓ گھس جاتا ہے نہانے اور کپڑے چینج کرنے کہ بعد حسن ڈراینگ روم میں جاتا ہے جہاں اس کی ماں ابو اور باجی اس کا ناشتہ پہ انتظار کر رہے ہوتے ہیں
نادیہ حسن کو آتا دیکھ بولتی ہے آگئے حضور شکر ہے ااب جلدی ناشتہ کرو اور سکول کے لیے نکلو پہلے سے لیٹ ہو
حسن بیٹھے ہوۓ باجی کی بات سن کر بولتا ہے باجی آپ کو تو میں سکون میں اچھا ہی نہیں لگتا آپ تو چاہتی ہو میں گھر سے بس باہر ہی رہو
نادیہ: ہاں میں تو یہی چاہتی ہوں سکون رہتا ہے گھر میں جب تم منہوس نہیں ہوتے تو اور ایک روزدار کہکہا کگاتی ہے
حسن بہن کی بات سن کر بولتا ہے کہ باجی آپ جاؤ کی گھر سے میں تو ادھر ہی رہو گا اور نادیہ حسن کی یہ بات سن کر کہتی ابو دیکھو نا عشمان کو یہ لڑ رہا مجھ سے جس پر حسن کے ابو بیٹا چپ کر کے ناشتہ کرو صبح صبح تم دونوں کی پھر لڑائی شروع ہو گئ
حسن ناشتہ کر کے گھر سے سکول کے کیے نکل پڑتا ہے وہیں نادیہ گھر کے کاموں میں مصروف ہو جاتی ہے
سکول کے دروازے پر پہنچ کے حسن کو کاشف کی آواز سنائی دیتی ہے جو اسے پیچھے سے آوازیں دے رہا ہوتا ہے کاشف حسن کا کلاس فیلو ہے اور حسن پیچھے مڑتا ہے تو کاشف کے لیے رک جاتا ہے اور پھر دونو مل کر سکول میں داخل ہو جاتے ہیں
کاشف حسن کا کلاس فیلو ہونے کے ساتھ ساتھ اس کا ہم عمر بھی تھا اور اس کا سیکس گرو بھی حسن اب جوان تھا اور اس کا لن بھی گھڑا ہوتا تھا اب اور باقی سیکس اور لڑکیوں کے بارے معلومات اسے کاشف سے ہی ملا کرتی تھی یہی وجہ تھی کہ وہ دونو کافی اچھے دوست تھے سکول میں بریک ٹائم بیٹھ کر دونو سیکس لڑکیوں وغیرہ پر باتیں کرتے تھے آج بھی جب بریک ہوئی تو حسن اور کاشف سکول کے گراؤنڈ میں ایک دیوار کے سہارے دھوپ میں بیٹھ کر باتے کرنے لگے
کاشف: حسن تمھیں آج ایک نئی بات بتانی ہے
حسن: ہاں بتاؤ کیا بات ہے
کاشف: مگر ایک شرط پہ کہ تم کسی سے ذکر نہیں کرو گے
حسن: پاگل ہو یار میں پہلی کبھی کسی سے بات کی بتاؤ کیا بات ہے
کاشف: تم حماد کو جانتے ہو نا جو اپنی کلاس کا ہے
حسن: ہاں جانتا ہوں اسے کیا ہوا
کاشف: اسے تو کچھ نہیں ہوا پر اس نے کیا بہت کچھ ہے کمینہ آجکل بڑے مزے کر رہا
حسن: کیا مطلب کیسے مزے کھل کے بتاؤ
کاشف: یار اس کی ایک پڑوسن ہے اس کے ساتھ وہ مزے کرتا ہے
حسن: چل جھوٹے تمھیں یہ کس نے بتایا
کاشف: میں جھوٹ نہیں بول رہا اس نے مجھے خود بتایا کہ اس کی پڑوسن خالہ پروین کے ساتھ وہ مزے لیتا ہے اور خالہ پروین کو چودھ بھی چکا ہے
حسن کاشف کی یہ بات سن کر سوچو میں گم ہو گیا کیونکہ حسن نیا نیا جوان تھا اور جوانی کے نشے میں پاگل تھا وہیں ایسی باتیں سن کر اسے اور زیادہ تڑپ ہوتی اور ساتھ ہی ساتھ اس کی سیکس کی طلب اور ایک عورت کی خواہش اسے اود پاگل کر دیتی
کاشف: کیا ہوا حسن تم کن سوچوں میں گم ہو گئے
حسن: کچھ نہیں یار بس یہی سوچ رہا تھا کہ اپنی چوتیا قسمت میں تو کوئی لڑکی لکھی بھی نہیں ہے
کاشف حسن کی بات سن کر مسکرایا اور بولا یار ہماری قسمت میں تو بس مٹھ مارنا کی لکھا ہے اور کاشف کی اس بات پر دونو کھل کر ہنسنے لگے
کاشف: ویسے حسن میرے پاس ایک آئیڈیا ہے
حسن: کیسا آئیڈیا
کاشف: ہنستے ہوئے تم میری گانڈ مارلو اور میں تمھاری
حسن کاشف کی یہ بات سن کر تھوڑا سنجیدگی سے بولا گانڈو تیری گانڈ مارنے سے بہتر ہے میں مٹھ مار لوں یہ سن کر دونو ہنسنے لگے
بریک ٹائم ختم ہوا اور دونو کلاس کو چلے گئے۔۔۔۔۔۔
شام کو ٹیوشن سے واپسی پر حسن کو راستے میں حماد مل گیا حسن نے اسے دیکھا تو فوراً کاشف کی بات یاد آ گئی کہ حماد اپنی پروسن کر چودھتا ہے اور حسن اسے رشک بھری نظروں سے دیکھنے لگا حماد حسن کے ساتھ سے گزر کر چلا گیا اور حسن اپنے گھر کی طرف گھر پہنچ کر ماں اور باجی کو سلام کر کے حسن اپنے کمرے میں چلا گیا حسن کے دماغ میں اب کاشف کی باتیں ہی گھوم رہی تھی اور اب حسن کو لڑکی کی طلب اور زیادہ ستانے لگی تھی
رات کو سوتے وقت بھی بستر میں گھسے حسن حماد اور خالہ پروین کو یاد کر دہا تھا حسن نے خالہ پروین کو دیکھا ہوا تھا جس بھرے جسم کی مالکن کسی سیکس کی دکان سے کم نہ تھی اس کی مٹکتی موٹی گانڈ کا پورا محلہ دیوانہ تھا اور ان کی موٹی چھاتیوں پر سب جان نچھاور کرتے تھے خاکہ پروین کا جسم سوچ کر حسن خیالوں خیالوں میں ہی ان کہ جسم سے کھیلنے لگا اسی دوران حسن کا لن بھی تن کر ٹائیٹ ہو چکا تھا
حسن خالہ پروین کو خیالوں ہی خیالوں میں چودنے اور ان کہ پھرے جسم کے مزے لے رہا تھا کہ اتنے میں ساتھ والے بیڈ پر لیٹی باجی نادیہ بولی
نادیہ: حسن ۔۔۔کیا ہوا سب ٹھیک تو ہے آج چپ چپ سے ہو
حسن باجی نادیہ کی آواز سے ایک دم چونک گیا اور بولا کچھ نہیںں باجی ویسے ہی
نادیہ حسن کی اس بات سے متفک نہ ہوئی اور پھر بولی کیا سکول میں کوئی بات ہوئی یا ماسٹر نے کچھ کہا
حسن جو مزے کی وادیوں میں گم تھا وہیں بار بار نادیہ اسے ان وادیوں سے کھنچ کر باہر لے آتی تھی حسن تھوڑا اکھڑے لہجے میں بولا کبھ بھی نہیں ہوا باجی سو جاؤ آپ اور مجھے بھی سونے
نادیہ حسن کا ایسا رویہ سن کر چپ ہو گئی اور دل ہی دل میں سوچنے لگی کہ آخر کیا ہوا حسن کو نادیہ اس وجہ سے پریشان تھی کیونکہ پہلے روز حسن نادیہ باجی کہ ساتھ سونے سے پہلے باتیں کیا کرتا تھا اسے روز کا حال احوال بتاتا اور نادیہ بھی اس سے باتیں کرتی تھی مگر آج حسن نادیہ کو پریشان لگ رہا تھا وہیں بڑی بہن اور حسن سے کافی اٹیچ ہونے کی وجہ سے اسے حسن کا ایسا رویہ کچھ اچھا نا لگا نادیہ آنکھیں بند کیے لیٹ گئی
وہیں حسن پھر سے خاکہ پروین کے بڑے چوتڑوں اور مموں کی وادیوں میں گم ہو کر مزے لینے لگا نا جانے کب حسن کا بائیہ ہاتھ اس کے 8 انچ لن تک پہنچ چکا تھا جو یہ سب سوچ کر ڈنڈے کہ جیسے اکڑا کھڑا تھا حسن خیالوں میں ہی خالہ پروین کو اپنے سامنے نگا کر کے ان کے جسم کے پھرپور مزے کے رہا تھا اور آہستہ آہستہ اپنے لن کو بھی سہلاۓ جا رہا تھا حسن کا مزہ تھا کہ ہر پل بڑھتا جا رہا تھا اور وہ آہستہ آہستہ لن کو ہلانے کی سپیڈ بھی بڑھاتا جا رہا تھا حسن اپنے خیالوں کی دنیا میں ایسے گم تھا جیسے مانو سچ میں خالہ پروین اپنا ننگا جسم نکالے اس کے سامنے پڑی اسے پیار دے رہی ہوں اور وہ ان کہ پھرے جسم اور پھدے کو جم کر چودھ رہا ہو
کچھ دیر بعد حسن کے لن ہلانے کی سپیڈ کافی تیز ہو چکی تھی اور بستر میں زور زور سے مٹھ لگانے کی آواز بھی اب کافی آنے لگی تھی
نادیہ باجی ابھی تک جاگ رہی تھی اور آنکھیں بند کیے نیںد کے انتظار میں تھی کہ حسن کہ مٹھ مارنے کی ہلکی آواز جو کمرے میں خاموشی ہونے باعث نادیہ کو سنائی دی نادیہ نے آنکھ کھولی اور ادھر اُدھر دیکھنے لگی تبھی اس کی نظر حسن کے بستر کی جانب گئی کمرے میں باہر سے آنے والی ہلکی روشنی کے باعث حسن کی سفید رضائی نادیہ کو صاف دیکھائی دے رہی تھی اور جب اس نے غور کیا تو حسن کی رضائی اچھی خاصی ہل رہی تھی زینب پہلے تو چونگ گئی کہ آخر کیا ہوا کوئی چیز تو حسن کہ بستر میں نہیں گھس گئی مگر تبھی اس کے جوان دماغ نے اسے جواب دے دیا زینب بھی اب جوان اور حسن سے عمر میں کئی سال بڑی تھی وہ ان سب چیزوں سے واقف تھی اور اس عمر میں ابھی تک شادی نہ ہونے کی وجہ سے وہ بھی کئی بار اپنی انگلی اپنی پھدی میں مار چکی تھی
حسن ان سب باتوں سے بے خبر اپنی ہی دنیا میں گم خیالوں میں خالہ پروین کو پوری آب وتاب سے چودنے میں مگن تھا
وہیں نادیہ بار بار اس آواز کو ان سنا کرنے اور دھیان نہ دینے جی ناکام کوشش کر رہی تھی مگر پھر بھی نا چاہتے ہوۓ اس کی نظر حسن کی بری طرح ہلتی رضائی پر جاتی نادیہ کا دماغ بھی اب ان سب باتوں کو سوچنے لگا
حسن مٹھ مار رہا ہے حسن اپنے لن کو ہلا رہا ہے وہ کس کو اپنے خیالوں میں چودھ رہا ہو گا اس کا لن کیسا ہو گا
یہ ساری باتیں نادیہ نہ چاہتے ہوۓ بھی سوچتے جا رہی تھی وہ بار بار ان خیالوں کو چھٹکتی مگر پھر اس کا دماغ ان سب باتوں کو سوچتا جا رہا تھا اور نادیہ کی بھی کب پھدی اپنا شہد گرانے لگی اسے معلوم ہی نہ پڑا نادیہ بھی جوان تھی سیکس کی بوکھی تھی وہ بھی خود پر کنٹرول نا رکھ پائی اور اپنی پھدی میں انگلی ڈال کر سہلانے لگی
کمرے میں حسن کی مٹھ کی آواز کافی نمایا تھی اور حسن جس دنیا میں گم تھا اسے کسی آواز کی خبر نہ تھی مگر پھر بھی نادیہ آہستہ آہستہ اپنی پھدی سہلا رہی تھی کہ کوئی آواز پیدا نہ ہو نادیہ اپنے خیالوں میں اپنے کزن حمید کو سوچنے لگی حمید حسن کے چاچو کا بیٹا تھا جو کہ دوسرے شہر رہتا تھا اور زینب کو کافی پسند بھی تھا مگر اس بات کا ذکر اس نے کسی سے نہ کیا اور نا کی حمید اس بات کو جانتا تھا بس زینب کو اس سے پیار تھا اور وہ اسی امید میں تھی کہ شاید حمید کہ گھر والے اس کا رشتہ مانگ لیں
ایک طرف حسن اپنے بستر پر لیٹے خیالوں میں خالہ پروین کا پھدا ٹھوکنے میں مصروف تھا وہیں اس کے ساتھ والے بستر پر لیٹی اس کی سگی بہن خیالوں میں حمید کے آگے گھوڑی بنے اپنی نازک کنواری پھدی مروانے میں مصروف تھی
دونو کچھ دیر مزے کی دنیا میں گم تھے کہ تبھی حسن کا۔مزہ اپنی انتہا کو پہنچا اور اس نے اپنا پانی چھوڑ دیا اب کمرے میں حسن کی مٹھ کی آواز بند ہو چکی تھی اور حسن فارغ ہونے کے بعد لمبی لمبی سانسیں لینے لگا تبھی حسن کو خیال آیا کہ کہیں اس نے کوئی آواز تو نہیں کی اور باجی نادیہ جاگ تو نہیں رہی جب حسن نے نادیہ کے بستر کی جانب دیکھا تو وہ بستر میں سر کھساۓ پڑی تھی اور حسن نے سمجھا وہ سو رہی ہے
تھوڑی دیر بعد نادیہ کی پھدی نے بھی اپنا جوان گرم پانی چھوڑ دیا اور وہ چپ چاپ وہیں لیٹ گئی
حسن فارغ ہونے کے بعد بہت ہلکا محسوس کر رہا تھا
2 تبصرے
Owsm
جواب دیںحذف کریںlovely
جواب دیںحذف کریں