عجیب رشتے (انسیسٹ) 2

 اور یہی وجہ تھی کہ وہ فوراً سو گیا مگر نادیہ فارغ ہونے کہ بعد اب تھوڑی پشیمان تھی کہ آخر اس نے بھائی کی مٹھ مارنے کے عمل کو سن اور محسوس کر لیا تھا مگر یہ احساس کچھ دیر ہی رہا اور وہ بھی سو گئی 

اگلی صبح روز کے جیسے نادیہ حسن کو جگانے گئی اور اس کے سرھانے کھڑے ہو کر اس کے کندھے کو چھنجوڑ کر جگانے کگی

حسن اٹھ بھی جاؤ کتنی بار آوازیں دے چکی ہوں جلدی کرو لیٹ ہو رہے ہو حسن کی انکھ کھکی تو روز کے جیسے باجی نادیہ کا غصیلہ چہرے اس کی نظروں میں آیا جو اسے جگانے میں لگی تھی 

حسن اٹھ گیا باجی 

زینب حسن کی آنکھیں کھلتی دیکھ کر جلدی سے مڑی اور بولی شکر ہے اٹھ گئے اب جلدی سے تیار ہو جاؤ کہتی کمرے سے نکل گئی 

حسن کچھ دیر بستر پر لیٹا رہا اور پھر اٹھ کر اپنا یونیفارم اٹھایا اور باتھروم میں چلا گیا حسن نے اپنی قمیص اتاری اور جب اپنی شلوار اتاری تو اس کی نظر شلوار پہ لگے داغ پر پڑی تبھی حسن کو رات کی ساری کہانی یاد آ گئی جب اس نے خیالوں میں خالہ پروین کا پھدا مارا تھا حسن نے شلوار کو وہیں کھونٹی پر لٹکا دیا اور جلدی سے نہا کر یونیفارم پہن کر لائنچ میں آ کر بیٹھ گیا جہاں اس کی امی اور بہن ناشتہ لگاۓ اس کے انتظار میں تھے حسن بھی جا کر بیٹھ گیا حسن کو دیکھتے ہی نادیہ کہ دماغ میں اچانک رات والا سارا قصہ آ گیا اور وہ حسن کو دیکھتے سوچنے لگی کہ بھائی آج تو سکون میں ہو گا نا جانے رات کس پر مزے لے رہا تھا نادیہ انہیں سوچوں میں گم تھی کہ حسن بولا ابو کہاں گئے 

تبھی اس کی امی بولی وہ صبح سویرے کھیتوں میں نکل گئے تھے آج کوئی کام کروانا تھا تو جلدی نکل گئے 

حسن یہ سن کر ناشتہ کرنے لگا اور پھر سکول کے لیے نکل گیا 

دوپہر ٹائم تقریباً زینب اپنے کاموں کو نپٹا کر کپڑے دھونے لگی اور پھر باتھروم میں جا کر حسن کہ کپڑے بھی اٹھا لائی اور مشین میں دھونے کو ڈالنے لگی تبھی اس کا ہاتھ حسن کی شلوار پر لگا تو جگہ کچھ سخت اور اکڑی سی تھی زینب سے شلوار کو صحیح کر کے جب دیکھا تو وہاں اچھا خاصا ہلکے پیلے رنگ کا نشان تھا جو سفید شلوار پر اور زیادہ نمایا نظر آ رہا تھا اور وہ جگہ بھی کافی سخت ہو چکی تھی زینب نا جانے کیا سوچتے اس جگہ پر اپنی انگلیاں پھیر کر محسوس کرنے لگی تبھی زینب کی ماں جو صحن میں چارپائی پر بیٹھی تھی اس جی نظر زینب پر پڑی جو اس کی سائیڈ کمر کر کے کھڑی تھی زینبِ کی ماں کو یہ تو نظر نہ آیا کہ رہ کیا کر رہی تو پوچھ لیا 

کیا ہوا بیٹا تبھی زینب اچانک ہوش میں آئی اور بولی کچھ نہیں امی چیک کر رہی کہ حسن کی کوئی چیز جیب میں رہ نہ کوئی ہو ہمیشہ کوئی نا کوئی چیز بھول جاتا اور پھر وہ دھل جاتی ہے اور یہ بول کر اس نے اس شلوار کو بھی ڈال دیا 

وہیں دوسری طرف بریک میں حسن اور کاشف بیٹھے باتیں کر رہے تھے تبھی حسن نے کاشف سے کہا 

کاشف تمھیں ایک بات بتاؤں 

کاشف ہاں بتاؤ کیا بات ہے

حسن: رات کو یار میں نے مٹھ ماری 

کاشف حسن کی یہ بات سن کر ہنستے بولا افففف یار کس کو سوچ کر مٹھ ماری گانڈو 

حسن: خالہ پروین کے موٹے چوتڑوں کو تم نے کل میرا دماغ خراب کر دیا تھا 

کاشف حسن کی بات سن کر کھلھلا کر ہنستے بولا حرامی اپنی قسمت میںں تو بس خالہ پروین کو خیالوں میں ہی چودھنا لکھا ہے 

حسن: کوئی نہیں یار ایک ان ہم بھی سچ میں کوئی پھدی ماریں گے 

تبھی کاشف حسن کی یہ بات سن کر بولتا ہے کہ حسن ایک بات بولوں اگر تم برا نا مانو تو 

حسن: ہاں بولو کیا ںات ہے 

کاشف: مگر پہلے وعدہ کرو کے برا نہیں مانو گے تب بتاؤں گا 

حسن: ابے گانڈو اب بولو بھی نہیں مانتا برا

کاشف: یار ہم کب تک مٹھ مارتے رہے تھے اور پھدی کہ لیے ترستے رہے گہ میری مانو تو دونو مل کر ایک دوسرے سے مزے لیتے ہیں 

حسن کاشف کی یہ بات سن کر ہمیشہ کی طرح کاشف کو گالیاں دیتے بولا حرامی کے بچے گانڈو میں لڑکی کی پھدی مارنی ہے تمھاری پھدی ہے کیا 

کاشف: پھدی تو نہیں ہے پر گانڈ تو ہے پھدی کہ نہ سہی دونو گانڈ کے مزے تو لے لیں گے اور تمھیں ابھی پتہ نہیں ایک بار مار لی تو جو مزہ آۓ گا یاد کرو گے 

حسن کاشف کی یہ بات سن سوچنے لگا حسن جانتا تھا کہ کاشف پہلے بھی محلہ کے دو لڑکوں کی گانڈ مار چکا ہے اور کئی ایک سے مروا بھی چکا ہے 

کاشف حسن کو سوچ میں ڈوبا دیکھ کر بولا یار سوچو مت میری بات مان لو گانڈ مارنے کا مزہ بھی بہت ہے اور پھر گانڈ چاہے لڑکی کی ہو یا لڑکے کی مزہ تو ویسا ہی دے گی 

حسن کاشف کی باتیں سن کر مستی میں آنے لگا اور اب اس کا بھی دل کرنے لگا کہ بات تو صحیح ہے لڑکی تو مل نہیں رہی تو ابھی کے لیے کسی لڑکے کی گانڈ کا ہی کیوں نہ مزہ لے کیا جاۓ یہ سوچ کر حسن بولا اور اگر کسی کو پتا چل گیا تو 

کاشف: گانڈو کسی کو تم بتاؤ گے یا میں کسی کو کیسے پتا چلے گا آپس کی بات ہے آپس میں رہے گی 

حسن اب کاشف کی باتوں میں پوری طرح آ چکا تھا اور پھر بولا 

چلو ٹھیک ہے پھر کس دن کریں

کاشف حسن کا یہ جواب سن کر اچھل پڑا اور بولا اففف میری جان آج ہی کریں گے یہ سن کر حسن حیران ہو کر بولا آج کیسے یار کوئی جگہ ہے تمھارے پاس یہ سن کا کاشف سوچ میں پڑ گیا یار کھیتوں میں کر لیں گے 

حسن کو کاشف کا یہ آئیڈیا اچھا لگا اور بولا ٹھیک ہے مگر اس بات کی خبر کسی کو بھی ہوئی تو تمھاری خیر نہیں 

کاشف یار تم ٹینشن نا لو کسی کو بھی پتا نہیں چلے گا آج شام ٹیوشن سے واپسی پر تم لالا عدنان کے کھیتوں میں آ جانا میں بھی وہاں تمھارا انتظار کروں گا حسن بولا اوکے ٹھیک ہے پھر ڈن ہوا 

اور دونو کلاس میں چلے گئے حسن کو لڑکوں میں خاصا انٹرسست تو نا تھا مگر جوانی کی آگ اسے اس کام میں بھی لے گئی اور اب حسن شام کے انتظار میں تھا 

شام کو ٹیوشن سے چھٹی کر کے حسن گھر کی جانب چلنے لگا تبھی کاشف بھی اس کو آ ملا اب دونو اپنے بناۓ پلان کے مطابق چپ چاپ لالا عدنان کے کھیتوں کی جانب چلنے لگے چونکہ حسن ایک گاؤں میں رہتا تھا تو ہر طرف کھیت ہی کھیت تھے اور لالا عدنان واکے کھیتوں میں جانا اس لیے ڈیسائیڈ ہوا تھا کیونکہ کو کافی گھنے اور لمبے تھے اور سائیڈ پر بھی تھے تو وہاں کسی کہ آنے جانے کا ڈر بھی نہیں تھا 

شام کا اندھیرا چھا چکا تھا اور حسن کاشف دونو کھیتوں کے درمیان بنی نالہ پر چلتے کھیتوں میں گھستے جا رہے تھے تبھی لالا عدنان نے انہیں دیکھ لیا

لالا عدنان ایک 36 سالہ نوجوان ہٹا کٹا مرد تھا لالا عدنان اکیلا رہتا تھا اس جے ماں باپ مر چکے تھے اور دو سال پہلے اس نے اپنی بیوی کو بھی طلاق دے دی تھی کچھ لوگوں کا کہنا تھا کہ لالا عدنان لونڈے باز تھا جس کی وجہ سے وہ بیوی کو خوش نہ رکھ پایا اور کچھ کا کہنا تھا کہ وہ نا مرد تھا جس وجہ سے بیوی چھوڑ گئی مگر کس بات میں کیا اصلیت تھی اللہ جانے مگر یہ سچ تھا کہ لالا عدنان بہت بڑا لونڈے باز تھا اور کئی بار حسن کو بھی سیکس کی دعوت اور بری باتیں کہہ چکا تھا جیسے لونڈے بازوں کی عادت ہوتی ہے 

خیر جب عدنان نے دونو کو شام کو چپکے کھیتوں میں جاتے دیکھا تو وہ سمجھ گیا کہ کیا گڑ بڑھ ہے اور وہ بھی کھیت میں چھپ گیا کہ جب کام شروع ہوا تو وہ اوپر سے جا کر پکڑ لے گا 

حسن اور کاشف اس بات سے انجان گھیت میں گھس گئے اور درمیان میں جا کر رک گئے ان کو یہ جگہ صحیح لگی اب وہاں سے ان کو کوئی نہ دیکھ سکتا تھا نا سن سکتا تھا 

کاشف بولا چلو اتارو کپڑے اور دونو اپنی اپنی شلواریں اتار کر ننگے ہو گئے دونو کہ لن پوری طرح تنے ہوۓ تھے تبھی کاشف نے کہا کہ پہلے میں کرو گا مگر حسن ڈٹ گیا کہ پہلے وہ کرے گا ورنہ وہ واپس چلا جاۓ گا جس پر کاشف جو مجبوراً ماننا پڑا اور وہ اپنی گانڈ حسن کی جانب کر جے جھک گیا 

حسن پہلی بار ریئلٹی میں کسی ننگی گانڈ کو اپنے سامنے دیکھ رہا تھا حسن مستی اور جوانی میں پاگل ہوا جا رہا تھا تبھی اس نے اپنا لن کاشف کی گانڈ کے سوراخ پر رکھا اور جھٹکے مارنے لگا مگر پہلی بار ہونے کی وجہہ سے لن اندر نہیں ڈال پا رہا تھا تبھی کاشف بولا گانڈو تھوک لگاؤ 

حسن نے تبھی اپنے لن کے ٹوپے اور کاشف کی گانڈ پر تھوک لگائی اور لن اس کی گانڈ کے سوراخ پر رکھ کر اندر ڈالنے لگا کاشف چونکہ پہلے بھی کئی لڑکوں سے گانڈ مروا چکا تھا سو حسن کا لن اندر گیا تو اسے زیادہ درد وغیرہ محسوس نہ ہوا بلکے وہ مزے لینے لگا 

حسن کا لن جونہی کاشف کی گانڈ میں گھسا حسن کو ایک عجیص سا مزہ اور لزت محسوس ہوئی ایسا مزہ جو آج سے پہلے اس نے کبھی نہیں محسوس کیا تھا اسے حسن کی گانڈ کی گرمی اور سختی اپنے لن پر محسوس ہو رہی تھی حسن مستی کہ عالم میں گم زور زور سے کاشف کو گھوڑی بناۓ چودھ رہا تھا 

وہیں دوسری طرف لالا عدنان سمجھ گیا۔کہ اب تک کام شروع ہو چکا ہو گا سو اچھا ٹائم ہے اور وہ آہستہ آہستہ دبے پاؤں آگے بڑھنے لگا 

حسن تو مستی میں مست دنیا سے بے خبر کاشف کو چودے جا رہا تھا اسے کیا پتا تھا کہ موت اس کی طرف بڑھ رہی ہے حسن اب فارغ ہونے لگا تھا اور اس کی مانو جیسے پوری جان نکل کر اس لن میں آ گئی ہو وہ وہیں کاشف کی گانڈ میں فارغ ہو گیا حسن اپنا لن نکالنے ہی والا تھا کہ لالا عدنان پہنچ گیا اور اپنے موبائل پر ویڈیو بناتے دونو کو رنگے ہاتھوں پکڑ لیا حسن اور کاشف عدنان کو دیکھ کر ایسے ڈرے جیسے جسم سے جان نکل گئی ہو دونو جلدی سے اٹھ کر کپڑے پہنے لگے اور عدنان ان کی وڈیو بناتا بولنے لگا ابے گانڈو بہت شوک ہے تم لوگوں کو گانڈ مروانے کا اب میں تمھیں بتاتا ہوں تم لوگوں کے گھر بتاتا ہوں روکو حسن کی تو جان نکل چکی تھی حسن کپڑے پہن کر رونے لگا اور لالا عدنان کی منتیں کرنے لگا کہ اسے معاف کر دے غلطی ہو گئی مگر عدنان کے ہاتھ تو جیسے کوئی خزانہ لگ گیا ہو وہ دونو کو گالیاں اور دھمکیاں دیتا رہا مگر حسن اور کاشف اس کی منتیں کرنے لگے تبھی عدنان بولا میں کسی کو نہیں بتاؤں گا پر ایک شرط پر کہ تم لوگ میری ساری باتیں مانو گے حسن اور کاشف جن کو اپنے سامنے موت دیکھائی دے رہی تھی فوراً بولے تم جو کھو گے ہم مانیں گے عدنان بولا ٹھیک ہے حسن تم گھر جاؤ تم سے بعد میں بات کرو گا اور کاشف تم میرے ساتھ آؤ عدنان کاشف کو گھر لے کیا جس پر کاشف اور حسن دونو سمجھ گئے کہ وہ اس کہ ساتھ کیا کرت گا وہیں حسں گھر آ گیا گھر پہنچ کر حسن کافی ڈرا ہوا تھا 

گھر داخل ہوتے ہیں حسن کی مان نے پوچھاکہ لیٹ کیوں ہو گئے جس پر حسن بنا کچھ بولے کمرے میں چلا گیا کپڑے چینج کیے اور بستر میں گھس کر ڈر کے مارے سوچنے لگا کہ آخر اب اس کہ ساتھ کیا ہو گا کسی کو بھی پتا چلا تو اس کی جان نکل جاۓ گی اور ابو تک بات گئی تو وہ تو مجھے مار ڈالیں گے حسن انہیں سوچوں میں تھا کہ اسے باجی نادیہ کی آواز آئی

حسن آؤ کھانا کھاؤ کیا ہوا اتنی جلدی بستر میں گھس گئے لگتا ہے سردی کچھ زیادہ لگ گئی تھوڑی آوارہ گردیاں کیا کرو 

حسن زینبِ کی آواز سن کر بولا باجی بوکھ نہیں ہے 

زینب: تھوڑا سا کھا لو رات کو لگ جاۓ گی پھر کیا کرو گے

حسن: تھوڑا غصے میں جاؤ نا بولا نا کہ بھوک نہیں 

نادیہ حسن کہ اس رویے سے چونگ گئی اور سوچوں میں ڈوبی اباہر نکل آئی آخر حسن کو ہوا کیا کل بھی موڈ میں تھا پریشان سا اور آج بھی پہلے تو کبھی ایسے لہجے میں مجھ سے بات نہیں کی تبھی نادیہ کی ماں نے پوچھا کیا۔ہوا حسن نہیں آیا 

نادیہ : نہیں امی کہہ رہا سکول سے کچھ کہا آیا تھا دوستوں سے ساتھ اس لیے اب بوکھ نہیں یہ سن کر سئن کی ماں بولی اچھا اور سب کھانا کھانے لگے مگر نادیہ کو اب یہ بات ستا رہی تھی کہ آخر حسن کو ہوا کیا حسن ہمیشہ خوش رہنے والا لڑکا اچانک کیا ہوا اسے کہیں وہ اپنی جوانی کہ وجہ سے تو پریشان نہیں شاید اسے کسی چیز کی سمجھ نہ آ رہی ہو نہیں مگر وہ لڑکا ہے اور لڑکوں کو تو سب پتا ہوتا ہے آخر بات کیا ہے

یہ سب سوچتی نادیہ نے تھوڑا سا کھانا کھایا اور پھر برتن سمیٹنے لگی 

رات کو جب سب سونے چلے گئے تو نادیہ بھی کمرے میں آئی دروازے کی کنڈی لگائی اور حسن کو دیکھا جو بستر میں سر ڈاکے پڑا تھا نادیہ کو اب اور زیادہ حسن جی فکر ہونے لگی کہ آخر ماجرا کیا ہے وہ سوچنے کگی کہ وہ حسن جے پھر بات کرے یا نہیں کہیں وہ پھر غصہ نا کر دے مگر پھر اس سے رہا نا گیا اور وہ حسن کہ سرھانے جا کر رضائی کو حسن کے منہ سے اٹھایا اور دیکھا تو حسن رو رہا تھا حسن کو روتے دیکھ نادیہ کی تو جان نکل گئی فوراً حسن کو گکے لگا کر پوچھنے لگی کیا ہوا حسن کیوں رو رہے ہو نادیہ حیران پریشان تھی کہ آخر حسن کو ہوا کیا وہیں حسن بھی اپنے ڈر میں پسا چلا جا رہا تھا اور سے بھی کسی سہارے کی ضرورت تھی جس سے وہ شیر کر سکے مگر وہ اس کی بڑی بہن تھی وہ اس کو بھلا کیسے بتاتا کہ وہ ایک لڑکے کی گانڈ مارتے پکڑا گیا ہے حسن نے خود کو سمبھالا اور بولا کچھ نہیں باجی بس ایک دوست سے لڑائی ہو گئی اس لیے نادیہ نے جب یہ سنا تو بولی کوئی حال نہیں پاگل میری تو جان نکال دی رو تو ایسے رہے جیسے کوئی مر گیا ہو تو کیوں رہے ہو دفع کرو میں ہوں نا تمھاری دوست پکے والی ٹھیک ہے حسن بولا ٹھیک ہے مگر اس کے دماغ میں ابھی تک وہی سب چل۔رہا تھا وہیں نادیہ اس کہ سرہانے بیٹھی اس کا سر اپنی گودھ میں رکھے اسے دلاسے اور تسلیاں دے رہی تھی 

نادیہ: اچھا اب رونا بند کرو آج سے میں تمھاری پکے والی دوست ہوں ٹھیک ہے 

حسن: جی ٹھیک 

زینب: اب مسکرا دو اور حسن کو گد گدی کرنے لگی 

حسن بھی تھوڑا سا مسکرا دیا اور پھر باجی نادیہ کو شک نہ۔ہو۔اس لیے خود کو سنبھالنے لگا 

زینب : دن کیسا گزرا میرے لاڈلے بھائی کا پڑھائی بھی کی یا بس دوستوں کے ساتھ گپے ماریں

حسن: باجی اچھا گزرا دن پڑھائی بھی کی ہے آپ کا کیسا گزرا

زینب: میرا کیسا گزرنا ہے بس گھر کے کام روز کے جیسے کرتی رہی اور ے گندے کپڑے دھوتی رہی نادیہ کا اشارہ کل والی بات پر تھا جو حسن نے مٹھ ماری تھی اور نادیہ حسن کے ساتھ وہ بات کر جے تھوڑا فری ہونا چاہتی تھی کہ شاید حسن ایسی باتیں زینب سے کریں اور اگر کوئی مسلہ ہو تو وہ اسے بتا دے 

مگر حسن نادیہ باجی کی اس بات کو سمجھ نہیں پایا اور بولا اچھا باجی پھر تو سو جاؤ آپ تھک گئی ہو گی  

باجی حسن کی اس بات سے خاموش ہو گئی اور پھر کچھ دیر یونہی خاموش بیٹھی حسن کا سر گودھ میں لیے بالوں کو سہلانے لگی حسن کو تھوڑا سکون مل رہا تھا جیسے اس کی پریشانی تھوڑی اس سے دور ہو گئی ہو اور وہ کسی ایسی جگہ ہے جہاں وہ محفوظ ہے نادیہ بہت دیر حسن کا سر گودھ میں لیے اس کے بال سہلاتی رہی اور جب حسن سو گیا تو نادیہ بھی جا کر اپنے بیڈ پر سو گئی 

اگلی صبح پھر وہی روٹین حسن کو نادیہ نے اٹھایا اور ناشتہ کر کے وہ اپنے سکول چلا گیا راستے میں حسن کو عدنان ملا عدنان کو دیکھ کر حسن ایک دم ڈر سا گیا عدنان حسن کے قریب آیا اور اسے کہا کہ آج سکول سے واپسی پر ٹیوشن نا جانا اور میرے گھر آ جانا اگر تم۔نا۔آۓ تو میں تمھارے ابو وہ وہ سب وڈیو دیکھا دوں گا حسن یہ۔سن کر کچھ نا بولا اور سکول چلا گیا حسن۔کافی پریشان تھا کہ نہ جانے عدنان اس کے ساتھ کیا کرنے والا ہے 

سکول سارا ٹائم وہ اسی پریشانی میں تھا جب بریک ہوئی تو حسن کاشف کو ڈھونڈنے لگا گراؤنڈ میں کاشف لڑکوں سے باتیں کر رہا تھا حسن نے اسے جا کر پکڑا اور بولا کچھ بات کرنی ادھر آؤ اور تھوڑا دور لے جا۔کر بولا 

حسن: بہن چود گانڈو پھنسا دیا۔نا

کاشف: گانڈو میں نے کیا پھنسایا ہے مجھے کیا پتا تھا۔کہ۔وہ گانڈو نے ہمیں دیکھ لیا تھا 

حسن: کل تم اس کے ساتھ گئے تو اس نے کیا کہا 

کاشف: مجھے ہار پہناۓ اور شاباشی دی گانڈو تجھے نہیں پتا کہ اس نے کیا۔کرنا تھا گانڈ ماری میری اور کیا 

حسن کاشف کو دیکھ رہا تھا۔کہ کاشف کو کہیں سے بھی نہیں لگ رہا کہ اسے کوئی ڈر ہے 

حسن: یار کاشف تمھیں ڈر نہیں لگ رہا 

کاشف: کیسا ڈر گانڈ ویسے بھی مرواتے ہیں اس سے بھی مروا کی تو کیا ہو گیا پر یار اس کا لن صحیح موٹا اور لمبا ہے مجھے تو الٹا مزہ آیا

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے