نادیہ اسی سوچ میں تھی کہ اس کہ دماغ میں ایک آئیڈیا آیا اور وہ ساتھ چارپائی پر بیٹھی امی جو ویسے لیٹی دھوپ سیک رہی تھی سے بولی امی میرا دل ہے کہ اب سے میں درمیان والے کمرے میں سویا کروں یہ سن کر امی نے اپنا بازو ماتھے سے ہٹایا سور آنکھیں کھولتے نادیہ کو بولی کیوں بیٹا علیحدہ کمرے میں کیوں تم دونو کا کمرہ کافی بڑا ہے آرام سے جگہ ہے وہاں تم دونو۔کی
نادیہ: جی امی جگہ کا مسئلہ نہیں ہے اصل میں حسن کے پرچے ہو رہے تو وہ رات دیر تک پڑھتا رہتا ہے سور آپ کو تو پتا ہے مجھے لائٹ آن ہو تو نیند نہیں آتی اور پھر صبح مجھ سے اٹھا بھی نہیں جاتا امی یہ سن کر بولی پر بیٹا حسن کے پرچے تو مشکل سے ایک ہفتہ رہے گے اور ویسے بھی آج دو پرچے تو ہو چکے ہیں پیچھے دن کیا رہ گئے اور دوسرا درمیان والے کمرے میں جگہ کہاں ہے سارا تو سامان سے بھرا پڑا ہے وہاں کیسے سو گی میری بیٹی
نادیہ کو امی کی بات صحیح لگی اور کا۔بہانہ۔کمزور پڑ رہا تھا مگر سب وہ بات کر چکی تھی اور علیحدہ کمرے میں ہی رہنا چاہتی تھی سو بولی امی جان ابھی حسن کے پیپر ختم ہوۓ تو وہ آگے پڑھے گا اور تب تو سسے پھر زیادہ محنت کرنا ہوگی وہ بتا رہا تھا کہ کالج کی پڑھائی آسان نہیں ہوتی ساری رات لوگ جاگ جاگ کر پڑھتے ہیں تو تب میں کیا کروں گی درمیان والے کمرے کی صفائی میں کر لوں کی اور سامان ادھر ادھر رکھ کر ایک چارپائی کی ہی جگہ بنانی ہے بن جاۓ گی
امی نادیہ کی باتیں سن کر بولی ٹھیک ہے بیٹا پر اس کمرے کی چھت بھی خراب ہے اس کی مرمت بھی نہیں ہوئی بارش آۓ تو ایسے ٹپکتی ہے جیسے کمرے میں بارش ہو رہی ہو
نادیہ نے ٹھان لیا تھا سو وہ ہر بات کا جواں دیے جا رہی تھی چاہے غلط یا صحیح اور بولی امی کچھ نہیں ہوتا اتنے مہینے ہو گئے بارش تو آئی نہیں اب کونسا آ جانی اور آئی بھی جس دن اس دن حسن کے کمرے میں سو جاؤں گی نادیہ کی ماں یہ سن کر بولی بیٹا مرضی ہے جیسے تمھیں ٹھیک لگے اور یہ بول کر دوبارا ماتھے پر بازو رکھے آنکھیں بند کر دھوپ سیکنے لگی نادیہ اب کافی خوش کو چکی تھی جلدی سے اس نے گھر کے باقی کام نمٹاۓ اور جلدی سے جا کر کمرہ کھولا اندر کا ماحول تو ایسا تھا جیسے کسی کارخانے کا دروازہ کھول دیا ہو ویسے تو یہ کیمرہ باقی کمروں کے ساتھ ہی بنا تھا اور اسے مہمانوں کے لیے ہی رکھا گیا تھا مگر کافی عرصہ سے ایسا کوئی مہمان نہ انے کی وجہ اور اس میں گھر کا سامان اور کاڑکباڑ رکھتے رکھتے سب کمرہ بھی کباڑ کی دکان بن چکا تھا جسے کافی عرصہ بعد کھولا گیا نادیہ کمرے کی حالت دیکھ کر پہچان گئی کہ کافی مشقت لگے گی مگر حسن کے غلط سوچ اور راستے کی وجہ سے نادیہ اپنی ہمت نہیں چھوڑ رہی تھی کافی کھنٹوں کی کڑی مشقت کے بعد کمرا مکمل صاف تو نا ہوا مگر ایک چارپائی اور رہنے کی جگہ بن گئی کیونکہ سامان تو وہیں رہنا تھا اور کوئی جگہ بھی نہ تھی جہاں سامان کو رکھا جاتا سو نادیہ نے سامان کو اوپر نیچے کر کے ایک چارپائی کی جگہ بنا لی نادیہ اب حسن کے کمرے سے چارپائی اٹھا کر درمیان والے کمرے میں لے جا رہی تھی کہ حسن بھی اتنے میں گھر لوٹ آیا گھر داخل ہوتے ہی ماں کو۔سلام کیا سور امی کے پاس کچھ دیر بیٹھ گیا سلام دعا کے بعد امی حسن سے اس کے پرچے کے بارے پوچھنے لگی جس پر حسن ان کو بتا رہا تھا کہ اچھا ہو گیا کہ اتنے میں نادیہ کمرے سے باہر نکلی نادیہ نے ڈوبٹا نہیں کیا ہوا تھا اس کا جسم اپنا جوبن دیکھا رہا تھا چھاتیوں کا ابھار آج ایک بار پھر حسن کو صحیح سے دیکھنے کا موقع ملا تھا اسی لیے حسن ایک لمحہ بھی اس خوبصورت جسم جس کو شاید خدا نے بڑی فرصت سے بنا تھا دیکھنے میں لگا تھا یونہی نادیہ کی نظر صحن میں بیٹھے حسن پر پڑی وہ جلدی سے اپنے سینے پر ہاتھ رکھے ناکام چھپانے کی کوشش کرتے پیچھے کو مڑی اور جلدی سے کمرے میں داخل ہو گئی نادیہ کہ مڑتے ہی حسن کی نگاہ اب اس کی پہاڑی جسی گانڈ جو ہلتے ہوۓ قیامت برپا کر رہی تھی پر جا ٹکی نادیہ کی نرم وملائم گانڈ اپنی تھرتھراہٹ اور اچھل کود سے صاف ظاہر کر رہی تھی کہ کسی روہی سے بھی زیادہ ملائم ہے جس کی چوڑائی اور گولائی اور پیچھے کو نکلے دو انمول چوتڑ حسن کی مانو جان نکال کر لے گئے حسن کو ایسے نظارے کبھی کبھی ہی دیکھنے کو ملتے تھے ورنہ تو نادیہ چوبیس گھنٹے سر پر اور جسم کو ڈوبٹے سے ڈھانپے رکھتی تھی جس کی وجہ سے اس کہ جسم کی اصل خوبصورتی اور جسم کے حصوں کو پورا دیکھ پانا۔حسن۔کے لیے مشکل ہوتا تھا وہیں اجکل۔نادیہ۔اور زیادہ بڑا ڈوبٹا کر کے رکھتی تھی جس سے حسن کو جو تھوڑا بہت آنکھوں کا سرور ملتا تھا وہ بھی ختم ہو چکا تھا مگر حسن کو نادیہ کے نورانی اور معصومیت سے بھرے چہرے کا دیدار کر کے بھی خوشی ملتی تھی
نادیہ اندر کمرے میں جا کر سوچنے لگی کہ ایک بار پھر وہ حسن کے سامنے ایسی گئی اور حسن کی ان نظروں کو سوچنے لگی کہ یہ انسان بہت غلط راستے پر جا رہا نادیہ۔کو۔اس بات پر بھی غصہ آ رہا تھا کہ۔وہ۔اپنے ہی گھر میں اب ایسے رہ رہی ہے جیسے کسی غیروں میں ہو جہاں اس کی عزت کو خطرہ ہو حسن کچھ دیر ماں کے پاس بیٹھا اور پھر اٹھ کر کمرے کی طرف چل۔پڑا حسن جونہی درمیان والے کمرے سے گزرا تو اسے کھلا دیکھا تو پہلے اسے اتنا خیال نہ گیا مگر جب اس نے وہاں چارپائی پڑی دیکھی اور صفائی تو تھوڑا حیران ہوا اور پھر کمرے میں چلا گیا حسن سوچنے لگا کہ شاید کوئی مہمان آ رہا ہو گا جس۔وجہ۔سے اس کمرہ میں چارپائی ڈالی گئی حسن کمرے میں گیا کپڑے چینج کیے اور پھر باہر نکل۔کر۔امی کی طرف بڑھتے بولا امی کوئی مہمان آ رہا ہے کیا امی یہ سن کر بولی نہیں بیٹا تو امی یہ درمیان والا کمرا کیوں صاف ہوا پڑا سور چارپائی بھی ڈال رکھی یہ سن کر امی بولی ہاں وہ تمھاری بہن آج سے وہاں سوۓ گئی یہ سن کر تو مانو حسن کے پاؤں تلے زمین نکل گئی نادیہ بھی کچن میں کھڑی سب باتیں سن رہی تھی حسن کافی حیرانگی سے کیوں باجی وہاں کیوں سوۓ گی ہمارے کمرے میں جگہ کافی ہے
امی: ہاں بیٹا پر وہ کہتی ہے کہ تم رات کو پڑھتے ہو تو اسے نیند نہیں آتی اس لیے وہ اب وہاں سوۓ گئی حسن یہ سن کر حیران ہوا کیونکہ حسن جانتا تھا کہ وہ تو کبھی رات کو نہیں پڑھا اور نالائق سٹوڈنٹ ہے پھر باجی نے ایسا کیوں کہا وہیں نادیہ بھی یہ دعا کر رہی تھی کہ حسن یہ نہ۔کہے دے کہ وہ تو رات کو سو جاتا ہے اور نہیں پڑھتا مگر حسن خاموش ہو گیا اور کچھ نہ۔بولا اور پھر سوچنے لگا کہ شاید باجی کو اس کی غلط نیت کا علم ہو گیا سور اب اسے وہ سب باتیں یاد آنے لگی باجی کا اس کے ساتھ اکھڑا لہجہ اس کے علاوہ اس کے سامنے بڑا ڈوبٹا کرنا اور اب علیحدہ کمرہ وہیں آج بھی نادیہ جیسے حسن کو دیکھ کر پیچھے مڑی تھی ایسے تو کوئی غیر مرد کو دیکھ کر مڑتا ہے حالانکہ اس پہلے بھی کئی بار بنا ڈوبٹے نادیہ حسن کے سامنے آجایا کرتی تھی مگر اس قدر جلدی سے اپنا جسم۔نہیں چھپاتی تھی حسن سمجھ گیا کہ نادیہ باجی کو سب پتا چل چکا ہے وہ اس بات سے پریشان بھی تھا اور شکر بھی کر رہا تھا کہ باجی نے کسی کو بتایا نہیں حسن کچھ دیر بیٹھا رہا اور پھر امی کو باہر کا۔کہہ کر گھر سے باہر نکل آیا حسن بار بار سوچ رہا تھا کہ آخر باجی اس کے بارے میں کیا سوچ رہی ہو گی یہ سب میری غلطی ہے مجھے خیال رکھنا چاہیے تھا اور اس طرح باجی کو گھورنے پر تھوڑا کنٹرول کرنا چاہیے تھا تو شاید ان کو شک نہ ہوتا تبھی اس کے دماغ نے ہی اسے جواب دیا کہ باجی کا ایسا طوفاں اور قیامت خیر وجود دیکھ کر وہ جتنی بھی کوشش کر لیتا وہ اپنی نظروں کو نا روک پاتا حسن انہیں سوچوں میں گم جا رہا تھا کہ اسے عدنان مل گیا عدنان حسن کو دیکھتے ہی اسے آملا اور گلا کرنے لگا
یار حسن کہاں غائب ہو اتنے دن ہو گئے نہ ملنے آۓ نا کال اٹھائی حسن عدنان کو دیکھ کر اندر سے تھوڑا اکتایا اور پھر بولا یسر میرے پیپر ہو رہے اس لیے
عدنان: چلو مگر ایک کال تو بندا کر سکتا ہے
حسن یہ سن کر کچھ نہ۔بولا عدنان پھر حسن کو خاموش اور چپ سا دیکھ کر سمجھ گیا کہ آج پھر حسن پریشان اور کسی سوچ میں ہے عدنان نے حسن کو کہا کہ اچھا چلو کہیں بیٹھ کر بات کرتے حسن بھی گھر سے باہر ٹائم پاس کرنے نکلا تھا اس لیے عدنان کے ساتھ چل پڑا اور دونو ایک ہوٹل کے آخری کونے کی ٹیبل پر آمنے سامنے جا بیٹھے عدنان حسن سے بات کرنے ہی والا تھا کہ اوپر سے ویٹر آنٹپکا
ویٹر: باس کیا لاؤں یہ سن کر عدنان نے حسن کو مخاطب کرتے کہا کہا کھاؤ گے حسن جو سوچوں میں گم تھا کچھ بھی منگوا لو بول کر خاموش ہو گیا
عدنان نے دو بریانی کا آڈر دیا اور ویٹر چلا گیا
عدنان: حسن کیا بات ہے آج پھر پریشان ہو
حسن: نہیں کچھ بات نہیں ہے
عدنان: کیا آج پھر گھر سے لڑ کر آۓ
حسن: تھوڑا اکتاۓ لہجے میں بولا نہیں یارکوئی بھی بات نہیں ہے جس پر عدنان خاموش ہو گیا تھوڑی دیر بعد دو بریانی پلیٹ ویٹر حسن اور عدنان کے سامنے رکھ کر چلا گیا سور وہ دونو کھانے لگے حسن ابھی تک سوچوں میں ڈوبا تھا اور عدنان سے حسن کی پریشانی نہیں دیکھی جا رہی تھی کچھ دیر تو وہ چپ رہا اور پھر حسن کے ہاتھ کو ٹیبل پر پکڑتے ہوۓ بولا دیکھو حسن میں تمھیں اپنا دوست مانتا ہوں اور تم سے ہر بات بھی شیئر کرتا ہوں کہا بات ہے تم پریشان ہو مجھ سے شیئر کرو آخر کیا مسئلہ ہے شاید میں کوئی مدد کر سکوں یہ سن کر حسن کافی ںے بسی کے انداز میں بولا نہیں تم کوئی مدد نہیں کر سکتے بلکہ کوئی بھی مدد نہیں کر سکتا یہ سن کر عدنان اور زیادہ جستجو میں پڑ گیا کہ آخر بات کیا ہے بتاؤ تو سہی
حسن: بتانے والی نہیں ہے
عدنان: کیا ہمارے بیچ اتنا سب ہونے کہ بعد بھی ایسی کوئی بات ہے جو۔ہم بتا نا سکے
حسن: ہاں کچھ باتیں ہوتی ہیں جو انسان خود کے سوا کسی سے نہیں کر سکتا
عدنان: تم بھی تو جان ہو میری تم میں کبھی فرق نہیں سمجھا میں نے تم سمجھتے ہو اسی لیے بتا نہیں رہے
حسن یہ سن کر خاموش رہا مگر عدنان پتا کرنا چاہتا تھا کہ آخر بات کیا ہے اس لیے پھر بولا کیا کوئی پیسوں ا۔مسلہ ہے یہ سن کر حسن ایک بناوٹی مسکراہٹ بکھیرتے بولا نہیں مجھے جو چاہیے وہ پیسوں سے نہیں خریدا جا سکتا حسن کی یہ۔ںات عدنان کو شک میں ڈال گئی اور وہ فوراً بولا کیا۔کوئی لڑکی کا چکر ہے یہ سنتے ہی حسن کا نوالا گلے میں ہی اٹک گیا اور وہ بوکھلا کر نہیں ایسا۔۔۔۔نہیں یہ مسلہ نہیں ہے مگر عدنان حسن کی بوکھلاہٹ اور انداز سے سمجھ گیا کہ کوئی لڑکی کا چکر ہی ہے دیکھوں حسن چھپاؤ مت بتاؤ کون ہے وہ یہ سن کر حسن تھوڑا غصے میں آ گیا سور بولا یار تم کچھ دیر چپ نہیں بیٹھ سکتے جس پر عدنان خاموش ہو گیا مگر وہ سمجھ گیا کہ۔کوئی لڑکی کا چکر۔ہی ہے مگر وہ کچھ نہ بولا دونو نے بریانی کھائی اور پھر ہوٹل سے نکل کر گھر کی طرف چل دیے سارا راستے دونو چپ چاپ چلتے رہے اب حسن کو افسوس ہو رہا تھا کہ اس نے عدنان پر چلا کر اور غصہ کر کے غلط کیا ہے جبکہ عدنان تو اس کا کافی اچھا اور ہم راز دوست تھا تبھی دونو چلتے ہوۓ عدنان کے گھر تک جا پہنچے عدنان نے حسن کو کہا کہ وہ گھر جاتا ہے پھر ملاقات ہو گی سور پیپر اچھے دے دینا۔یہ بول کر۔ عدنان گھر کا دروازہ کھول کر اندر داخل ہی ہوا تھا کہ حسن بھی پیچھے سے بنا۔کبھ بولے اندر داخل ہو گیا اور کمرے کی طرف بڑھ گیا عدنان بھی یہ دیکھ کر کچھ نہ بولا اور دروازے کی کنڈی لگا کر کمرے میں چلا ایا۔جہاں اب حسن بیڈ پر بیٹھا تھا عدنان بھی حسن کے ساتھ بیڈ پر بیٹھ گیا اور پھر حسن کو اپنی باہوں میں لے کر اس کے چہرے پر چومتے ہوۓ پیار سے بولا میری جان بتاؤ کیا مسئلہ ہے میں مانتا ہوں لڑکیوں میں میرا کوئی انٹرسٹ نہیں ہے اور جس سے تم پیار کرتے وہ میں لا کے بھی نہیں دے سکوں گا مگر تم اپنی پریشانی مجھ سے بانٹ کر اپنا۔دل ہلکا کر سکتے ہو
حسن کو عدنان کی باہوں میں کافی سکون مل رہا تھا اور اس کی باتیں بھی کافی اچھی لگ رہی تھی حسن نا چاہتے ہوۓ بھی بول پڑا کہ ہاں لڑکی کا مسلہ ہی ہے جس پر عدنان فوراً بولا کون ہے اپنے محلے کی ہے جس پر حسن بولا میں تمھیں سب باتیں بتاؤں کا ایک شرط پر۔کہ تم کبھی لڑکی کون ہے یہ جاننے کی کوشش نہیں کرو گے جس پر عدنان بولا ٹھیک ہے میری جان تم ہو مجھے لڑکیوں کا ویسے بھی شوق نہیں اب بتاؤ کے مسلہ کیا ہے حسن نے اپنے دل کا سارا ہال احوال بتا دیا کہ وہ کسی لڑکی سے بہت زیادہ پیار کرتا ہے مگر نا وہ اظہار کر پاتا ہے اور نہ ہی وہ لڑکی کبھی اس کی ہو سکتی ہے
عدنان یہ سن کر کچھ سوچتے بولا تو یار تم اس سے اگر اتنا پیار کرتے ہو تو رشتا بھیج دو اور اب جوان ہو 12 بھی کرنے والے شادی کر لینا۔حسن عدنان کی بات سن کر دل ہی دل میں سوچنے لگا کہ کاش اس سے شادی کر سکتا تو اس سے اچھی ںات کیا تھا اور پھر بولا نہیں رشتہ نہیں بھیج سکتا عدنان یہ سن کر بولا یسر رشتہ کیوں نہیں بھیج سکتے اور ایک بار کوشش کرنے میں کیا ہرج ہے عدنان کو کہاں پتا تھا کہ حسن کس لڑکی کی بات کر رہا حسن بولا۔بس نہیں بھیج سکتا
عدنان یہ سن کر تھوڑا حیران ہوا سور پھر بولا کہ کیا وہ لڑکی جانتی ہے کہ تم اس سے پیار کرتے ہو یا اس سے ملے ہو اپنے پیار کا اظہار کیا تم نے؟؟
یہ سن کر حسن بولا نہیں میں نے اظہار نہیں کیا پر وہ جانتی ہے کہ میں اس سے پیار کرتا ہوں
یہ سن کر عدنان فوراً جستجو سے بولا تو کیا وہ بھی تم۔سے پیار کرتی ہے
جس پر حسن نے ایک ٹھنڈی سانس بھری اور کہا نہیں پیار تو دور شاید نفرت کرتی ہے مجھ سے
عدنان کو۔یہ سن کر افسوس تو ہوا اور وہ جاننا بھی چاہتا تھا کہ آخری لڑکی کون ہے مگر اس نے وعدہ کیا تھا سو اس نے نا پوچھا اور بولا کون کمبخت ہے جو میری جان سے پیار نہیں کرتی
حسن یہ سن کر کچھ نا۔بولا۔سور پھر عدنان اسے تسلی دیتے بولا کوئی بات نہیں جانی دیکھنا وہ ایک دن تمھاری ہو گی اور میری کہیں بھی مدد چاہیے ہو۔بس کال کر دینا ورنہ یہ گھر بھی تیرا اپنا ہے آ جانا حسن کو عدنان کے ساتھ یہ شیر کر کے اچھا لگا تھا وہ کچھ دیر بیٹھا عدنان کو چومتا رہا اب عدنان اسے کافی پیارا لگنے لگا تھا اور پھر وہ گھر کو چل۔پڑا
حسن گھر پہنچ تو سامنے اس کی امی اور ابو بیٹھے باتیں کر رہے تھے حسن سلام کر کے سیدھا کمرے کو چل دیا حسن جونہی کمرے میں داخل ہوا تو سامنے نادیہ کمرے سے اپنی چیزیں اٹھا کر دوسرے کمرے میں لے جا دہی تھی حسن کا دل کیا کہ وہ سوری کر کے باجی کو اپنے دل۔کا۔سارا حال باتا دے اور ان کو بتاۓ کے اس پیار پر ان کا روز نہیں مگر ایسا کہنا ممکن نہ تھا نادیہ۔کوئی اس کی کزن۔یا غیر لڑکی نہیں تھی اس کی سگی بہن تھی نادیہ نے جونہی حسن کو دیکھا وہ غصے سے کمرے سے باہر نکل گئی اب دونو بنا۔ایک دوسرے سے بات کیسے ایک دوسرے کے دل کا حال جان چکے تھے حسن جہاں باجی نادیہ کے پیار میں ڈوبا ایک عاشق بنا۔پھر رہا تھا وہیں نادیہ دل میں حسن کے لیے انتہا کی نفرت پال چکی تھی
شام ہوئی کھانا کھا چکے تو سب سونے کو اپنے اپنے کمروں میں چلے گئے وہیں حسن بھی اپنے کمرے میں آ کر بستر میں گھس گیا حسن کافی پریشان اور اداس تھا کیونکہ اس کہ ساتھ والے بستر پر آج اس کی بہن نہیں تھی اور وہ اس بات سے بھی کافی پریشان تھا کہ جس باجی نے اسے سب سے زیادہ پیار اور بھروسا دیا تھا آج وہی اس کے کیے نفرت لیے بیٹھی ہے حسن مان رہا تھا ہ اری غلطی اسی کی ہے مگر وہ یہ بھی جانتا تھا کہ باجی کے پیار نے اسے مجبور کر دیا تھا اور اگر ایسا ممکن نہ تھا تو اس کے دل میں باجی کا پیار آیا ہی کیوں وہ بھی جانتا تھا کہ جو پیار وہ کر بیٹھا تھا وہ گناہ کے ساتھ ساتھ معاشرتی لحاظ سے بھی قابل قبول نہ تھا مگر اسے پیار ہو چکا تھا جس میں وہ ںری طرح ڈوب چکا تھا اور اس سب کے بعد بھی وہ اس پیار سے انکاری نہیں تھا حسن جانتا تھا کہ یہ رشتہ ممکن نہیں اسی کیے وہ چاہتا تھا کہ بس باجی اس ے ساتھ رہتی وہ انہیں دیکھتا رہتا اور دونو ایک اچھے دوست بن کر رہتے
وہیں نادیہ جو آج ایک الگ کمرے میں بستر پر لیٹی یہی سب سوچ رہی تھی اور اب اسے بھی محسوس ہو رہا تھا کہ شاید اسے بھی حسن کے ساتھ اور احساس کی عادت پڑ چکی تھی اسے الگ کمرے میں سو کر بہت برا اور اکیلا محسوس ہو رہا تھا
0 تبصرے