وہ حسن ہی تھا جسے بچپن سے ہی نادیہ نے اہنے بچے کہ جیسے پالا تھا ہمیشہ دونو۔ساتھ رہے اور گھر میں حسن ہی تھا جس سے باتیں کر کے نادیہ کو اچھا لگتا تھا مگر آج دونو الگ تھے آدھی زندگی کا ایک مضبوط خون کا رشتہ ایک دن میں ہی چکنا چور ہو چکا تھا جہاں بہن اپنے ہی بھائی سے اپنی عزت بچانے کے چکر میں تھیں نادیہ یہ سب سوچ رہی تھی جہاں اس کے دل میں حسن کے لیے نفرت تھی وہیں وہ حسن کے احساس اور سات کو یاد کر کے اداس بھی ہو رہی تھی دونو سوچوں میںں گم سو گئے اگلی صبح روٹین کے مطابق نادیہ نے حسن کو جگایا اور پھر کمرے سے نکل گئی حسن بھی اٹھا تیار ہوا اور پیپر دینے چلا گیا اس دوران حسن نے پوری کوشش کی کہ وہ باجی کو۔نا دیکھے
دن یونہی گزرنے لگے حسن کے پیپر ختم ہو چکے تھے اور نادیہ اور حسن کے درمیان آۓ فاصلے کو 5 دن ہو چکے تھے اس دوران نہ حسن نے نادیہ سے کوئی خاص بات کی نہ ہی نادیہ نے مگر حسن کا پیار کم ہونے کی بجاۓ بڑھتا چلا جا رہا تھا وہیں نادیہ کہ دل میں حسن کے لیے نفرت کم ہو چکی تھی کیونکہ بہت دن سے حسن نے سے گھورنا بند کر دیا تھا عدنان بھی حسن سے اپڈیٹ لیتا رہا اور حسن اسے تھوڑا بہت بتاتا رہا
حسن کا سکول اب ختم ہو چکا تھا اس کا 12 کا رزلٹ آنا تھا اور اب وہ گھر پر ہی ہوتا تھا تو صبح لیٹ اٹھنا اس کا معمول بن چکا تھا گرمیاں بھی اب شروع ہو چکی تھی
حسن صبح اٹھا ہاتھ منہ دھو کر باہر جا بیٹھا امی خالہ کے ساتھ معمول کے مطابق باتیں کرنے میں مصروف تھی سور نادیہ گھر میں جھاڑو لگانے میں نادیہ نے جونہی حسن کو دیکھا تو چکن میں چاۓ بنانے چلی گئی
اتنے میں امی کال بند کر چکی تھی حسن امی کو سلام کیا اور نارمل باتیں کرنے لگے کچھ ہی دیر گزری تو نادیہ بھی چاۓ بنا کر لے آئی اور حسن کو پیالا پکڑا کر لوٹ گئی حسن نے بس نادیہ کو ایک نظر دیکھا جس سر سے لے کر نیچے تک بڑی شال اوڑھے ہوۓ تھے حسن کو باجی کا جسم دیکھے کئی دن گزر چکے تھے اور اب اس کی نظریں اس قاتلانہ جسم کو دیکھنے کے کیے بھوک سے مر رہی تھی مگر مجبور حسن کر بھی کیا سکتا تھا
حسن نے چاۓ پینا شروع کی اور اتنے میں ابو بھی موٹر سائیکل پر اندر داخل ہوۓ ان کے ساتھ بہت سارا سامان تھا جس میں کھانے پینے کا۔جیسے پکوڑے سموسے اور بسکٹ اور گچھ فروٹ بھی تھا حسن کی فیملی اور مڈل کلاس تھی اتنا سارا سامان دیکھ کر حسن سمجھ گیا۔کہ۔کوئی مہمان ہی آ رہا ورنہ تو ابو فروٹ اور یہ سب چیزیں اتنی لے کر نہیں اتے حسن کے ابو نے نادیہ کو آواز دی جس نے آ کر ان سے سامان لے لیا اور پھر اندر چلی گئی اور ابو حسن کے پاس آ کر ںیٹھ گئے
حسن: اںو خیر تو ہے اج اتنا سارا سامان کے آۓ
ابو: اپنے جوتے اتار کر چارپائی پر چوکڑی ڈال کر بیٹھتے ہوۓ ہاں بیٹھا خیر ہے بس دعا کر آج ایک رشتے والے آ رہے تمھاری بہن کو دیکھنے
یہ سن کر حسن کی جان سی نکل گئی حسن اپنی سوچوں میں گم اٹھ کر کمرے میں چلا آیا اور امی ابو باتیں کرنے لگے
حسن کو بہن کے رشتے سے پرابلم نہیں تھی وہ جانتا تھا کہ وہ اس کی تو کبھی نہیں ہو۔سکتی ظاہر ہے وہ اس کی بہن تھی اس کو اس بات کی پریشانی تھی کہ نادیہ نہ جانے کہاں بہا کر چلی جاۓ گی اور پھر حسن جو اب اسے دیکھ لیتا ہے اور اس بات سے خوش ہے کہ ناراض بھی ہے تو اس جے سامنے تو ہے تب نا جانے دیکھنا بھی سالوں بعد نصیب ہو گا
وہیں نادیہ کچن میں کھڑی سب دیکھ اور سن رہی تھی اور جب حسن رشتے کی بات سن کر اٹھا تو نادیہ سمجھ گئی کہ حسن کو برا لگا اور پھر وہ دل ہی دل میں دعا کرنے لگے کہ بس یہ رشتے والے ہاں کر دیں اور وہ بہا کر چلی جاۓ کیونکہ اب نادیہ بھی ایک مرد سے جنسی سکون پانے کو بےتاب تھی اور حسن سے بھی چھٹکارا چاہتی تھی نادیہ کے دل میں اب حسن کے لیے وہ نفرت تو نہیں رہی تھی مگر پھر بھی وہ نہیں چاہتی تھی کہ حسن دوبارا اس سب میں بڑے وہ سمجھ رہی تھی کہ شاید حسن اب اس سب کو بھول چکا ہے اس کا بہت بار حسن سے بات کرنے کا دل بھی کیا۔کہ۔سب پہلے جیسا ہو جاۓ اور بہن بھائی کا وہ رشتہ قائم ہو جاۓ مگر وہ اس ڈر سے بھی کوئی بات نہیں کرتی تھی کہ کہیں حسن پھر اسی راستے نہ۔چل پڑے
دن میں نادیہ نہائی اور اچھے کپڑے پہن کر تیار ہو گئی امی کہ کہنے پر سور پھر عصر ٹائم رشتے والے بھی پہنچ گئے لڑکا 25 سال کا تھا اور ساتھ شہر میں اپنا کاروبار کرتا تھا اپنا گھر بھی تھا اور لوگ بھی شریف تھے پات چیت ہوتی رہی اور پھر کچھ ہی دیر بعد باجی نادیہ چاۓ لے کر آئیں باجی انتہا کی پیاری لگ رہی تھی سفید رنگ کا لباس جس پر کڑھائی کا۔کام۔کافی خوبصورت تھا اور اب باجی کا۔ڈوبٹا بھی چھوٹا تھا شاید امی نے ہی کروایا تھا کیونکہ جہاں یہ معاشرہ اچھا اور نیک ہونے کا۔دعویدار ہے وہیں لڑکیوں کو دیکھتے وقت جسم کی نمائش کرنا بھی شاید لازم ہوتا ہے باجی چاۓ رکھ کر آے عورت جو ان کی آگے ساس بننے والے تھی ان کے پاس بیٹھ گئی باجی نے شرم۔سے سر جھکایا ہوا تھا اور ان کے چہرے پر۔ہلکی مسکراہٹ تھی باجی قیامت لگ رہی تھی حسن کا بس چلتا تو وہ کہتا کہ مجھے یہ رشتہ منظور ہے باجی کہ مموں کا ابھار ان کے جالی دار دوبٹے سے خاصا ظاہر ہو دہا تھا لڑکے نے بھی باجی کو دیکھا شاید وہ بھی یہی دیکھ رہا ہو گا کہ ایسے مموں کی مالکن دیوی اس سے پہلے کہیں نہیں دیکھا ایسا جسم جسے دیکھ کر خسروں کے لن بھی تن کھڑے ہوں کچھ دیر سب باتیں کرتے رہے اور لڑکے کا پورا فوکس باجی پر تھا اور پھر لڑکے نے اشارے میں اپنی ماں کو۔ہاں کر دی جس پر اس کی ماں خوشی سے بولی کے ہمیں رشتہ منظور ہے آپ کی بیٹی ہمیں پسند آئی ہے یہ سن کر جہان امی ابو بہت خوش ہوۓ وہیں باجی کہ چہرے پر ایک چمک سی آ گئی حسن باجی کو خوش دیکھ کر خوش ہو گیا اور کر بھی کیا سکتا تھا ظاہر ہے ایک نا۔ایک دن نادیہ نے جانا۔تھا۔وہ۔حسن۔کی۔کبھی۔نہ۔تھی اور نا ہی ہو سکتی تھی لڑکے کی ماں نے ایک سونے کی انگوٹھی باجی نادیہ کو پہنائی اور رشتہ پکا ہو گیااور شادی کی تاریخ کے لیے کچھ دن ںعد دوبارا آنے کا ٹائم دیا سب نے مٹھائی کھائی اور ایک دوسرے کو مبارک دینے لگے حسن باجی کے لیے خوش بھی تھا اور اپنے پیار کے جنازے پر ماتم خیز بھی
کبھ دیر ںعد مہمان چلے گئے امی ابو اور حسن بیٹھے باتیں کرنے لگے اور نادیہ۔کچن میں سامان رکھ کر کمرے میں جا بیٹھی اور اندر ہی اندر بہت خوش تھی نادیہ بس اب خواب ہی دیکھے جا رہی تھی اسے بھی اب ایک مرد مل چکا تھا اور جلد وہ اس کے گھر جانے والی تھی کمرے میں جا کر خوشی سے جھومنے لگی حسن کچھ دیر بیٹھا امی ابو کی باتیں سنتا رہا جو کافی خوش تھے اور شکر پڑھ رہے تھے اور پھر حسن اٹھ کر باہر چلا آیا
حسن سوچ رہا تھا کہ اب باجی چلی جائے گی دوسرے شہر اور اس کا پیار اسے اب کبھی دیکھنا بھی مشکل سے نصیب ہو گا وہیں وہ اس بات سے خوش بھی تھا کہ باجی اکیلا محسوس کرتی ہیں اور ان کو بھی کسی مرد کی ضرورت ہے جسو اب ان کی پوری ہو گی اور نادیہ کی خوشی بھی حسن اس کے چہرے سے دیکھ چکا تھا حسن کافی دیر باہر گھومتا رہا
حسن گھر لوٹا تو باجی نادیہ کو دیکھتا تھا نادیہ حد سے زیادہ خوش تھی آج سے پہلے حسن نے باجی کو اتنا خوش نہیں دیکھا تھا رات کو جب سب سو گئے تو حسن بھی کمرے میں چلا گیا حسن کا بار بار دل کر رہا تھا کہ وہ باجی سے جا۔کر بات کرے اور ان سے معافی مانگ کر اپنے دل کی بات کہہ ڈالے مگر ایسی ہمت اس میں کہاں تھی وہ بہت دیر۔سوچتا رہا تبھی حسن کے دماغ میں ایا کہ کچھ ہی دن ہیں اور پھر باجی شادی کر کے اپنے گھر چلی جاۓ گی اور پھر شاید مہینوں میں ایک بار باجی کا دیدار حسن کو نصیب ہو گا تو کیوں نا جو کچھ دن بچے ہیں ان میں وہ باجی سے پیار کر لے اور ان کو اپنے دل کی حالت سب جا کر بتا دے باجی کے اندر بھی جزبات ہیں ظاہر ہے وہ بھی ایک عورت ہیں جیسے حسن ان کا سیکسی جسم دیکھ کر ان کے پیار میں مبتلا ہوا شاید باجی کو بھی سب سچ بتا کر حسن اس کو اپنے جال میں پھنسا لے اور اگر نہ بھی پھنسی تو کم ازکم وہ باجی کو سب سچ بتا کر اپنے دل کا بوجھ تو ہلکا کر لے گا اب حسن نے ٹھان لی کہ جب بہن بھائی کا پیار غلط ہے اور وہ اتنا سب سہہ چکا ہے تو کیوں نا وہ کھل کر اظہار کر دے پھر جو ہو گا دیکھا جاۓ گا اور آخر اٹھ کر باجی کہ۔کمرے کی طرف چل پڑا حسن اپنے کمرے سے نکل کر باجی کے کمرے کے سامنے جا۔رکا۔جسکا دروازہ بند تھا حسن کی ہمت نہیں ہو رہی تھی مگر پھر اس نے مشکل سے دروازہ کھٹکھٹایا اندر نادیہ جو رشتے کی خوشی میں لیٹی اپنی شادی کہ خواب دیکھ رہی تھی اچانک دروازے کے کھٹکھٹانے سے چونگ گئی آخر اس وقت کون آ گیا خدا خیر کرے اور پھر اونچی آواز میں چارپائی سے اترتے بولی کون ہے
حسن نادیہ کی آواز سن کر خاموش کھڑا رہا نادیہ نے جونہی دروازہ کھولا۔اس کا۔دل منہ۔کو۔آگیا۔حسن کو۔سامنے دیکھ کر اس کی سسٹی گم ہو گئ وہ بھی رات کو حسن بھی نادیہ کو دیکھ کر پہچان گیا کہ وہ کافی ڈر گئی ہے اور حیران بھی ہوا کہ اج وہ اس مقام پر آنپہنچا ہے کہ اس کی بہن اس کو دیکھ کر ایسے گھبرا رہی جیسے کوئی غیر مرد رات کو اس کے دروازے پر کھڑا ہو
نادیہ قدرے غصے اور اکھڑے لہجے میں بولی بولو۔۔۔۔۔
حسن: باجی مبارک دینے آیا آپ کو۔۔۔۔حسن۔کو۔سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ وہ کیا بولے
نادیہ۔یہ۔سن۔کر۔جو ڈری اور سہمی ہوئی تھی بس شکریہ بول۔کر۔خاموش کھڑی ہو گئی اور نیچے دیکھنے لگی حسن اندر جانے لگا جس پر نادیہ جلدی سے پیچھے کو ہٹ گئی اور بولی حسن اب جاؤ
حسن بنا کچھ بولے چارپائی پر جا کر بیٹھ گیا نادیہ ابھی تک ڈری ہوئی تھی اور اسے کچھ سمجھ بھی نہیں آ رہا تھا کہ وہ کیا کرے اور اسی لیے وہ سہمے ہوۓ غصے سے بولی تم جاتے ہو یا میں امی ابو کو بلاؤں
یہ سن کر حسن بولا اچھا پھر کیا کہو گی انکو کہ میرا بھائی میری عزت لوٹ رہا یہ سن کر نادیہ کی شرم سے آنکھیں جھک گئی اور حسن بھی حیران ہو گیا کہ آخر وہ کیا بول بیٹھا ہے پہلی بار تھا جب ایسی کوئی بات حسن کے منہ سے بہن کے بارے نکلی
حسن ماحول کو سمبھالتے ہوۓ بولا باجی بیٹھ جاؤ مجھے بس کچھ بات کرنی آپ سے یہ سن کر نادیہ بھی خود کو سمبھالتے ہوۓ چارپائی کے ایک کونے پر بیٹھ گئی
اور پھر حسن نے ایک ٹھنڈی آہ بھر کر بولنا شروع کیا باجی میں جانتا ہوں کہ آپ کو سب پتا لگ چکا ہے میں جانتا ہوں کہ جو کچھ بھی میں نے کیا یا سوچا وہ غلط تھا مگر میرا پیار غلط نہیں تھا میں نے دل سے آپ سے پیار کیا ہے اور ہمیشہ کرتا رہوں گا حسن کے منہ سے ایسی باتیں سن کر نادیہ کا تو دماغ ہی گھوم گیا اور وہ غصے میں بولی بے شرم انسان کیا بکواس کر رہے ہو حسن پھر سے اپنی بات کو بڑھاتے ہوۓ بولا باجی اپ کا غصہ سب جائز ہے مگر اس میں میرا بھی کوئی قصور نہیں آپ پیاری ہی اتنی ہیی کہ مین آپ سے پیار کر بیٹھا آپ کے جسم کا ایک ایک حصہ اتنا پیارا ہے کہ اسے ساری ذندگی دیکھتا رہوں مگر اب تو وہ بھی آپ نے چھپا رکھا
یہ سننا تھا کہ نادیہ نے ایک زوردار تھپر حسن کے منہ۔پر دے مارا اور اسے دھکے دے کر کمرے سے نکالنے لگی
نکل جاؤ کمینے انسان شرم نہیں اتی تمھیں ایسی گھٹیا اور غلیظ باتیں اپنی بہن کے بارے بولتے ہوۓ
حسن جو نادیہ کہ دھکوں سے دروازے پر پہنچ چکا تھا اور اتنا سب ہونے کے بعد سب کچھ بول دینا چاہتا تھا
باجی کیا ہوا پیار کا کوئی رشتہ نہیں ہوتا اور میں نے کونسا عزت لوٹی ہے بس آپ کو اتنا کہا ہے کہ اس بھائی پر اتنا ظلم نہ کرو اور اپنا جسم دیکھنے کا حق نہ چھینو آپ بھی کسی مرد کے لیے تڑپ رہی اور میں بھی عورت کے لیے تو ایک دوسرے کا تھوڑا ساتھ دے دینے میں کیا حرج ہے یہ سن کر نادیہ نے حسن کو غصے سے دھکا دے کر باہر نکالا اور دروازہ بند کر دیا حسن بھی اپنے کمرے میں چلا گیا
نادیہ یہ سب سن کر کافی غصے اور صدمے میں تھی جو کچھ حسن اسے کہہ کر گیا تھا ایسا تو وہ خوابوں میں بھی نہیں سوچ سکتی تھی جو باتیں حسن نے کی نادیہ بار بار ان باتوں کو سوچے جا رہی تھی
وہیں حسن بھی اب پشیمان تھا کہ جلد بازی میں وہ پتا نہیں کیسے اتنا سب کچھ نادیہ کو بول آیا حسن بھی پریشان تھا اور خود کو ملامت کر رہا تھا
صبح نادیہ کی آنکھ کھلی رات بہت دیر تک وہ جاگتی رہی تھی اور حسن کی کہی باتوں کو سوچتی رہی تھی اور اب صبح صبح پھر سے وہ سب باتیں اس کے دماغ میں گھومنے لگی اور اسے تنگ کرنے لگی
حسن کی آنکھ روز کے جیسے لیٹ کھلی وہ بھی رات دیر سے سویا تھا اور آنکھ کھلتے ہی اسے وہ سب باتیں یاد آئیں وہ باتیں جو وہ خواب میں بھی نادیہ سے نہیں کہہ سکتا تھا نا جانے وہ حقیقت میں وہ کیسے بول گیا صبح اٹھ کر اب اسے ایک اور ٹینشن بھی لگ گئی کہ کہیں باجی نے یہ سب امی کو بتا نا دیا ہو وہ اٹھا اور کمرے سے باہر نکلا جہاں امی بیٹھی سویٹر بن رہی تھی حسن کو دیکھ کر ہمیشہ کے جیسے چوما اور دعائیں دی حسن کی ٹینشن تھوڑی کم ہوئی کہ چلو باجی نے بتایا تو کسی کو نہیں سو وہ اٹھ کر باتھروم چلا گیا تھوڑی دیر بعد حسن پھر باہر جا بیٹھا نادیہ اس کے لیے چاۓ لے کر آئی اور اسے انتہا غصے سے دیکھا حسن نے نظریں چرا لی اور امی سے باتیں کرنے لگا امی اور ابو دونو کافی خوش تھے وہیں نادیہ بھی شادی کی وجہ سے خوش تو بہت تھی مگر رات حسن کی ان باتوں سے پریشان بھی تھی کیونکہ حسن نے جو باتیں نادیہ۔کو۔کی وہ شرمسار تھی
حسن نے چاۓ پی اور پھر گھر سے باہر نکل آیا اج حسن تھوڑا خوش تھا کیونکہ اب اس نے باجی کو۔وہ سب بول دیا۔تھا جو وہ بولنا چاہتا تھا حسن پھر عدنان کے پاس چلا گیا عدنان گھر پر ہی تھا عدنان اور حسن بیٹھ کر باتیں کرنے لگے تبھی عدنان بولا حسن آج خوش لگ رہے ہو کہیں رشتہ تو پکا نہیں ہو گیا اور ہنسنے لگا
حسن بھی سن مر مسکرا دیا اور بولا نہیں نہیں بس میں نے اپنے پیار کا اظہار کر دیا یہ سن کر عدنان خوشی سے اٹھا اور حسن کو چومتے بولا جی او میرا شیر یہ ہوئی نا بات پھر کیا کہا اس نے حسن بولا نہیں ابھی جواب نہیں ملا مگر بس میرے جو دل میں تھا وہ بتا کر مجھے خوشی ہوئی عدنان حسن کی بات سن کر بولا کوئی نہیں دیکھنا وہ بھی تمھیں پسند کرے گی یہ سن کر حسن ہنستے ہوۓ بولا نہیں ایسا کبھی ہو نہیں سکتا وہ نفرت کرتی ہے مجھ سے
یہ سن کر عدنان پاگلوں جیسے بولا پھر یار ایک ہی حل ہے اسے ادھر اٹھا لاتے ہیں تم اس کی پھدی مارو سالی کی ایسے نہیں مانتی تو حسن یہ بات سن کر مسکراتے ہوۓ بولا اچھا تو پھر تو بڑا مان جاۓ گی نا
جس پر عدنان بولا یار مجھے لڑکیوں کی زیادہ سمجھ تو ہے نہیں لیکن اتنا۔تجربہ ضرور ہے کہ جب ایک بار ہو۔جاۓ تو عادت پڑ جاتی ہے عدنان مذاق مذاق میں بہت پتے کی بات کہہ گیا تھا حسن سوچنے لگا کہ بات کو سچ ہے جیسے پہلے اسے گانڈ مروانا پسند نہیں تھا مگر ایک بار مروا لینے کے بعد اسے مزہ آنے لگا تھا اسے اب ایک نیا راستہ مل چکا تھا حسن اب کچھ اور سوچنے لگا کہ اگر وہ زبردستی باجی کے ساتھ کچھ کرے تو کیا پتا باجی اس کے ساتھ مزے کرنے کو راضی ہو جاۓ مگر کیسے زبردستی کرے رات کو صرف ایک دو باتیں کہنے پر جس نے حسن کو تھپڑ مار ڈالا تھا وہ زبردستی یا جسمانی کسی بھی عمل پر پکا امی ابو کو بتا دے گی حسن کو سوچوں میں گم دیکھ عدنان سمجھ گیا کہ حسن کو عدنان کا مشورہ اچھا لگا اور وہ جلتی پر تیل ڈالتے بولا سوچو نہیں میری جان یہی موقع ہے آخر کوئی بھی لڑکی ہو پھدی تو اس کی بھی خارش ہوتی ہے اور جب تم نے ایک بار کچھ ایسا کر دیا جس سے اس کے جسم کی اگ آگ بھڑک اٹھی تو سمجھو تمھارا کام ہو گیا پھر وہ خود اپنے جسم کی آگ تمھارے لن کے پانی سے بجھواۓ گی عدنان کو اس بات کا زرا بھی علم نہیں تھا کہ وہ جو مشورے حسن کو دے رہا وہ حسن کسی باہر کی لڑکی پر نہیں بلکہ اپنی ہی سگی بہن پر آزمانے کو تیار بیٹھا تھا حسن کو عدنان کی ساری باتیں کافی اثردار لگ رہی تھی مگر اس کی سب سے بڑی پریشانی نادیہ باجی کا زیادہ مذہبی اور شریف ہونا تھا حسن جانتا تھا کہ باجی نادیہ اگر باقی بہنوں جیسی تھوڑی کھلے دماغ کی ہوتی تو شاید اس کا کام آسان ہوتا مگر نادیہ اپنے گھر اور علاقے کہ ماحول کی۔وجہ۔سے اس سب سے کافی دور اور باقی لڑکیوں جیسی اوپن مائنڈ نہ تھی
0 تبصرے