عجیب رشتے (انسیسٹ) پارٹ 13

 


حسن کچھ دیر عدنان کے پاس رہا اور پھر گھر کو چل دیا گھر پر باجی نادیہ سے اس کی انکھ مچولی ہوئی مگر وہ اس قدر غصے سے حسن کو دیکھ رہی تھی کہ اس کا بس چلتا تو وہ اس کا سر پھوڑ ڈالتی وہیں نادیہ کو اب حسن۔سے پھر سے نفرت ہو چکی تھی جو پہلے سے کافی زیادہ تھی چونکہ حسن رات میں جو کچھ نادیہ۔کو۔ننگی۔باتیں کہہ چکا تھا وہ نادیہ کی سوچ سے بھی پرے تھی حسن گھر پہنچ کر ایک بار پھر عدنان کی باتوں کو سوچنے لگا اور آخر کار اس نے یہ طے کر لیا کہ اب اسے جب بھی موقع ملا وہ باجی نادیہ کو اپنا پیار اور اس کے جسم کی پیاس کا احساس دلوانے میں کسر نہیں چھوڑے گا 

اگلے دن حسن کے امی ابو اب شادیوں کی تیاریوں میں مشغول ہو چکے تھے ابھی تک شادی کی تاریخ طے تو نہ ہوئی تھی مگر منگنی ہونے کہ بعد حسن کے امی۔ابو کو جلدی تھی۔کہ جتنا جلدی ہو سکے وہ تمام تیاریاں مکمل کر۔لین تاکہ شادی کی تاریخ بھی جلدی رکھ لی جاۓ جس کے چلتے اگلی صبح حسن کی امی اور ابو شہر میں شاپنگ کرنے نکل گئے گھر پر حسن اور نادیہ ہی اکیلے تھے 

جہاں حسن نادیہ کے ساتھ اکیلے ہونے پر خوش تھا وہیں نادیہ دل ہی دل میں پریشان اور ڈری ہوئی تھی کیونکہ حسن کی نیت ڈے اب وہ بخوبی واقف تھی اور حسن صاف لفظوں میں اسے ایسی باتیں کہہ چکا تھا جو شاید ایک بھائی کے منہ سے بہن کے لیے سننا آسان نہیں تھا 

نادیہ گھر کے کاموں میں مشغول رہی وہیں اس کا دھیان حسن پر بھی تھا کہ وہ دوبارہ اس سے کوئی ایسی بات نہ۔کرے 

حسن صحن میں ںیٹھا یہ سوچ رہا تھا کہ آج اسے موقع مل گیا اور اسے آج کچھ کرنا چاہیے مگر اس کی ہمت بالکل بھی نہیں ہو پا رہی تھی حسن بار بار عدنان کی باتیں سوچ سوچ کر خود کو ہمت دے رہا تھا اور یہ سوچ کر۔کہ نادیہ کچھ دن کی ہی مہمان ہے وہ چلی گئی تو وہ ہمیشہ بچتاۓ گا سو کیونکہ ایک بار نادیہ کہ اس جسم کو چھو کر وہ اپنا یہ شوک پورا کر لے حسن اسی سوچ میں تھا کہ نادیہ کمرے سے نکل کر سبزی لے کر کچن میں گھس گئی حسن سمجھ گیا کہ اگر اس نے ابھی کچھ نہ۔کیا۔تو وہ ہمیشہ بچتاۓ گا اور یہ سوچتے وہ اٹھا اور کمرے کی طرف چل پڑا نادیہ کچن میں بنی کھڑکی سے حسن کو دیکھ رہی تھی اور حسن کو اسی طرف آتا دیکھ کر تھوڑا چوکنا بھی ہو گئی حسن کچن میں جونہی داخل ہوا نادیہ نے پیچھے مڑ کر دیکھا اور ایک محاظ۔پر۔کھڑے فوجی کی طرح چوکنا ہو گئی حسن سمجھ گیا سو وہ پانی پینے لگا تاکہ نادیہ سمجھے کہ حسن پانی پینے آیا تھاپانی پیتے حسن بولا باجی امی لوگ کب تک آئیں گے کچھ بتا کر گئے ہیں نادیہ حسن کہ اس جواب پر غصیلے انداز میں بوکی مجھے کیا پتا اور تمھیں ان کے آنے کی فکر کیوں ہو رہی 

حسن: مجھے باہر جانا تھا دوست سے ملنے تو وہ آئیں گے تو جاؤ گا ورنہ تم گھر پر اکیلی ہو گی 

نادیہ: کیوں اکیلے میری عزت لوٹ کر لوئی لے جاۓ گا 

حسن: کیا پتا۔۔۔۔

نادیہ حسن کا۔یہ جواب سن کر مڑی اور حسن کو دیکھتے بوکی تمھارے ہوتے ہوۓ مجھے زیادہ ڈر ہے اپنی عزت لٹنے کا 

حسن یہ سن کر ہنستے ہوۓ بولا بہن بھائی کی عزت ہوتی ہے پھر اپنی عزت بھلا۔کون۔لوٹ سکتا ہے ہاں استعمال کر سکتا ہےیہ سن کر نادیہ قدرے غصے میں حسن کو دفعہ۔ہو جاؤ بولی حسن وہیں کھڑا رہا اور پھر بولا باجی میری بات مان لو میں جانتا ہوں آپ کو بھی اس سب کی ضرورت ہے اس رات میں نے کچھ آوازیں سنی تھیں حسن یہ۔بول۔کر۔چپ۔ہو گیا جونہی نادیہ۔نے یہ سنا وہ چونک سی گئی اور ہڑبھڑا کر بولی۔کونسی۔آوازیں 

حسن: آپکا اپنی پھدی سے کھیلنے کی آوازیں حسن کی ایسی بلحاظ اور گندی باتیں نادیہ۔کو بری تو لگی۔مگر وہ شرمسار بھی ہوئی کیونکہ حسن اس کی ایک غلطی پکڑ چکا تھا وہیں نادیہ بھی جلدی۔میں اپنے ڈیفینس میں بولی میں بھی کئی بار سن اور دیکھ چکی ہوں تمھاری بھی 

حسن یہ سن کر بولا تو اسی لیے باجی۔کہہ۔رہا کہ دونو مجبور ہیں ایک دوسرے کا ساتھ دیتے ہیں اس سے کیا ہو جانا بھلا ویسے بھی کچھ دن بعد اپ نے کسی اور کے پاس چلے جانا تب تک بھائی کا ہی کچھ بھلا کر دونادیہ۔حسن کی سب باتیں سن رہی تھی اور اب ناجانے اسے اتنا خاص غصہ نہیں آرہا تھا اور وہ چپ چاپ کھڑی حسن کو اگنور کرنے لگی وہیں حسن بھی نادیہ کی چپ کا فائدہ اٹھاتے اور بولتا گیا

باجی یہ تو زیادتی ہے آپ کا سگا بھائی اپ کے جسم کا سکون پانے کو ترس رہا اور آپ جا کر کسی اور کو وہ سب سونپ دو گی میں زیادہ نہیں کہہ رہا بس اوپر اوپر سے ایک دوسرے کو سکون دینے کا کہہ رہا حسن یہ سب باتیں کیے جا دہا۔تھا اور اس کا لن تن کر کھڑا ہو چکا تھا جو اس کے کپڑوں کو آگے سے اچھا خاصا اوپر اٹھاۓ ہوۓ تھا نادیہ کو ناجانے حسن۔کی۔یہ۔سب باتیں تھوڑی ابھی لگ رہی تھی مگر حسن اب ایک حد سے پار ہو دہا تھا سو نادیہ اپنا بھرم رکھتے پیچھے مڑ کر حسن کو بولی دفعہ ہو جاؤ ورنہ ابھی ابو کو کال کر دوں گی تبھی اس کی نظر حسن کی اٹھی شلوار پر پڑی جسے دیکھ کر ایک دم۔اسے جھٹکا سا لگا نادیہ پہلی بار کسی مرد کو ایسی حالت میں دیکھ رہی تھی اور ناچاہتے ہوۓ بھی اس می نظر کچھ دیر حسن کے لن کی اکڑ سے اٹھے کپڑوں پر ٹکی رہی اور پھر بمشکل اپنی نظروں کو۔ہٹا کر وہ دوبارا سالن بنانے لگ رہی اس کے دل کی دھڑکن بڑھ بکی تھی وہیں حسن بھی جان چکا تھا کہ نادیہ نے اس کا اکڑا لن کافی غور سے دیکھا ہے اور اتنا سب ہونے کہ بعد وہ موقع پر چوکا مارنا چاہتا تھا اور تبھی وہ۔نادیہ۔کی۔طرف چپکے سے بڑھا اور جلدی سے نادیہ کو پیچھے سے گلے لگا لیا حسن کا لن کو تن کر راڈ بنا کھڑا تھا سیدھا نادیہ کی پہاڑیوں کے بیچ بنی وادی میں فٹ ہوا اور حسن کے دونو ہاتھ نادیہ کے مموں کو اپنے اندر دبوچنے چکے تھے نادیہ کو حسن کہ اس وار کا بلکل اندازہ نہ تھا کیونکہ تھوڑی دیر پہلے حسن کا اکڑا لن دیکھ کر نادیہ کی سوچ وہیں گھوم رہی تھی نادیہ کو حسن نے جونہی دبوچا نادیہ نے ایک زوردار چیخ ماری اور خود کو حسن نے بھڑا کر دور ہو گئی نادیہ کی دل کی دھڑکن کافی تیز ہو چکی تھی اور اس کا سانس بھی بھولنے لگا وہیں حسن جو ایک لمحہ میں بہت کچھ کر کر چکا تھا اب وہ بھی کافی ڈر گیا اور جلدی سے باہر نکل آیا اور گھر سے باہر جا کر کھیتوں کے گرد مٹی کی بنی ڈھیری پر بیٹھ گیا حسن پر باجی۔کہ۔جسم کا احساس ہاوی۔تھا باجی کو گلے لگاتے ان کی نرم روہی کے جیسے گانڈ کا احساس اور ان کے مموں کی گولائی حسن کو ایک مستی کی دنیا میں گم کیے ہوۓ تھے حسن یقین نہیں کر پا رہا تھا۔کہ۔جس جسم کو دیکھنے کے لیے وہ ترس رہا تھا اج اسی جسم کا لمس وہ پا چکا تھا وہ لمس کچھ سیکنڈ کا۔ہی تھا مگر وہ حسن کو صدیوں کا لطف اور مزہ دے گیا تھا اور اب حسن کی اگ بجھنے کی بجاۓ اور بھڑک اٹھی تھی مگر یہ لطف اور مزہ کچھ دیر رہا اور پھر حسن کو اس سوچ نے آ گھیرا کے باجی نادیہ اب کسی کو بتا نا دے کیونکہ وہ بہت بڑا کارنامہ کر۔کے آیا تھا جہاں وہ باجی کے جسم کا لمس پا کر۔خوش تھا وہیں اسے یہ ڈر کافی ستا رہا تھا کہ۔باجی۔اب اس کے ساتھ بہت برا کرے گی اور وہ۔پکا امی ابو کو بتا دے گی کیونکہ حسن جانتا تھا کہ جو بہن اسے ایک بار دیکھنے پر لمبا ڈوبٹا کر کے اپنا۔جسم چھپا سکتی ہے اسے تھپڑ مار سکتی ہے اب اس بڑی بات کا۔انجام وہ۔یہی کرے گی 

نادیہ جو اس سب سے بعد کافی حیران اور پریشان تھی اسے یقین نہیں ہو دہا تھا کہ کچھ دیر پہلے جو کچھ ہوا وہ ایک خواب تھا یا حقیقت اس کے اندر کا غصہ ندامت اور شرمندگی اسے اور پریشان اور تنگ کر رہے تھے اس کی سانسیں ابھی تک پھولی ہوئی تھی اور وہ دیوار سے لگی ایک بت بنی کھڑی تھی نادیہ اس سب کو سمجھنے اور برداشت کرنے سے قاصر تھی اور اب اس نے ٹھان لیا کہ۔وہ۔یہ۔سب امی ابو کو بتاۓ گی اور حسن کے کیے اس گناہ کی سزاہ اسے دے گی 

حسن سارا دن باہر گھومتا رہا اسے رہ رہ کر یہی خیال آ رہا تھا کہ آج اس کا آخری دن ہے کیونکہ اسے یقین تھا کہ باجی اب امی ابو کو بتا دے گی اور اس کے بعد جو حال اس کا ہوگا وہ سوچ بھی نہیں سکتا تھا 

عصر کے ٹائم حسن کے امی ابو بھی شاپنگ کر کے گھر کو لوٹ آۓ نادیہ نے سلام دعا کے بعد ان کو جاۓ پانی۔دیا اور سامان لے کر اندر رکھنے چلی گئی نادیہ کے دماغ پر بھی آج والی حسن کی حرکت ابھی تک تازہ تھی اور وہ اسی پریشانی اور کشمکش میں تھی بہت بار امی سے بات کرنے کا اس کا دل بھی کیا مگر ہمت نا کر پائی کیونکہ نادیہ بھی سمجھدار تھی کہ یہ بات نہ صرف حسن بلکہ اس کے لیے بھی بدنامی سور امی ابو کی رسوائی کا سبب بنے گی سو نادیہ نے یہی سوچا کہ اب کچھ ہی دن ہیں اس کی شادی کو اور وہ۔یہاں سے چلی جاۓ گی تب تک وہ اس بات کو اور حسن کو برداشت کر لے گی 

شام کے بعد تک حسن باہر ہی گھومتا رہا اور وہ اب یہی سوچ رہا تھا کہ وہ گھر نہیں جاۓ گا مگر شام۔ہوتے ہی ماں کو بیٹے کی یاد ستانے لگی اور بار بار نادیہ سے پوچنے لگی جس پر۔نادیہ۔نے بتایا کہ امی باہر گیا ہے بتا کر نہیں گیا آجاۓ گا حسن کی امی نے حسن کو۔کال کی جونہی حسن نے گھر کا نمبر دیکھا اس کے دل کی دھڑکن تیز ہو گئی حسن سوچنے لگا کہ نادیہ نے سب بتا دیا ہو گا اور اب امی ابو اسے نہیں چھوڑیں گے سو اس نے کال نا اٹھائی 

حسن کی ماں نے مایوسی سے موبائل رکھا اور بڑبڑاتے ہوئی بوکی ناجانے کہاں چلا جاتا ہے 

انتظار کرتے کرتے رات کافی ہو چکی تھی اور اب حسن کے ابو اور امی دونو کی پریشانی بڑھنے لگی کال۔کرنے پر بھی حسن کال۔اٹھا نہیں رہا تھا وہیں اب نادیہ کا دل بھی اسے وسوسوں میں ڈالنے لگا کہ کہیں حسن ڈر کہ مارے گھر نا لوٹ رہا۔ہو کہ دن والی بات میں نے امی ابو کو نا بتا دی ہو اور اب وہ اسی ڈر سے لوٹے گا بھی نہیں اور جو بات نادیہ بدنامی کے ڈر سے چھپا رہی ہے کہیں وہ حسن کے اس نادانی سے پتا نہ چل جاۓ نادیہ۔نے یہ سوچ کر امی سے موبائل لیا اور ایک میسج حسن کو لکھا 

حسن کے موبائل پر میسج گیا تو حسن نے دیکھا تو لکھا تھا گھر لوٹ آؤ میں نے وہ بات کسی کو نہیں بتائی  

یہ۔پڑھ کر حسن سمجھ تو گیا کہ یہ میسج نادیہ نے ہی لکھا ہے کیونکہ اس کی امی ابو دونو انپڑھ تھے مگر پھر بھی اسے یقین نہیں آ رہا تھا اور وہ سوچ رہا۔تھا کہ شاید نادیہ اسے یہ بہانا کر کے گھر بلا۔رہی

نادیہ بھی ہاتھ میں موبائل لیے حسن کے ریپلائے کے انتظار میں تھی مگر حسن کا کوئی جواب نہ آیا تو نادیہ نے دوبارہ میسج لکھا 

حسن کو دوبارہ میسج ملا۔جس کو کھولا تو لکھا تھا 

" میں نے کسی کو نہیں بتایا مگر اب جو تم گھر سے باہر ہو اور ایسا کرو گے تو سب کر پھر پتا چل جاۓ گا بات کو مت بڑھاؤ واپس آؤ" 

حسن نے جب یہ پڑھا تو اسے کچھ امید ملی کہ واقعی نادیہ۔نے نہیں بتایا ہو گا مگر پھر بھی اسے ڈر لگ رہا تھا مگر ناچاہتے ہوۓ بھی وہ گھر کی طرف چل پڑا 

حسن جونہی گھر پہنچا تو گھر کا ماحول نارمل تھا بس امی اس بات پر غصہ تھی کہ بنا بتاۓ اتنی دیر باہر نا رہا۔کرو حسن نے اپنی کی بات سنی اور سیدھا کمرے میں چلا گیا اور شکر کرنے لگا کہ نادیہ۔نے کسی کو نہیں بتایا اب حسن کی سانس میں سانس آئی اور وہ بستر پر لیٹ گیا وہیں نادیہ کی بھی پریشانی۔کم۔ہوئی 

رات کو بستر پر لیٹے حسن یہی سب سوچتا رہا باجی کہ جسم کا لمس اس کی پیاس بڑھا گیا تھا وہ آنکھیں بند کیے اس لمحے اور احساس کو محسوس کر رہا تھا جب اس نے نادیہ کو پیچھے سے گلے لگایا تھا اس کا لن جب باجی کی گانڈ کے حصوں کے درمیان جا لگا تھا اسے ایسا لگا تھا جیسے اس کے لن کو باجی کی گانڈ نے اپنی باہوں میں لے لیا ہو اس کی کے پیٹ پر لگتی باجی کی قمر کا احساس اور اس کے ہاتھوں میں مموں کی نرماہٹ حسن کو پاگل کر رہا تھا وہ جس آگ کو بجھانے چلا تھا وہ تو اب الٹا بڑھ چکی تھی حسن وہ سب یاد کرتے اپنے لن کو ہلاتے جا دہا تھا اور باجی نادیہ کے نام کی مٹھ لگانے میں مصروف تھا 

وہیں نادیہ بھی جا کر جونہی بستر پر لیٹی آنکھیں بند کرتے ہی اچانک اس کی نظروں سامنے حسن کا کھڑا لن آ گیا جسے اس نے دن ٹائم دیکھا تھا نادیہ کے دلو دماغ سے حسن کے لن کی تصویر نکل ہی نہیں رہی تھی نادیہ کو حسن کا لن اپنی گانڈ پر صاف محسوس ہوا تھا جب حسن نے زبردستی اسے پیچھے سے گلے لگایا تھا نادیہ کو وہ احساس بار بار یاد آنے لگا اور حسن کے لن کی تصویر اس کی نظروں میں گھومنے لگی وہ بار بار اس خیال کو جھٹکنے کی ناکام کوشش کر رہی تھی مگر وہ احساس تھا کہ بڑھتا کی چلا جا رہا تھا نادیہ جو جوان ہوتے ہی کسی دن کی خواہش میں تڑپ رہی تھی آج اس نے حقیقت میں اسے دیکھ اور محسوس کیا تھا اور وہ احساس اس کے اندر کے جزبات اور آگ کو بڑھاوا دے گیا۔تھا مگر وہ جب یہ سوچتی کہ وہ لن اور احساس حسن کا تھا جو اس کا۔بھائی۔ہے تو وہ اس خیال کو روکتی مگر ناکام جا رہی تھی نادیہ کو بار بار حسن کے لن کی تصویر اور اس کا احساس گرماۓ جا رہا تھا اور پھر نادیہ نے بھی اپنی انگلی اپنی پھدی پر رکھی اور اسے مسلنے لگی نادیہ اپنی گرمی مٹانے کے لیے بار بار کسی اور مرد کو سوچ کر اپنی گانڈ میں انگلی۔کرتی مگر پھر بھی بار بار اسے وہ احساس جو۔حسن۔کے لن نے اسے دیا تھا اس کے خیالوں میں آ جاتا اور اب نادیہ مستی اور مزے کہ اس درجے کو پہنچ چکی تھی جہاں انسان غلط اور صحیح کی پہچان کھو بیٹھتا ہے اور اب نادیہ حسن کو سوچ کر اور اس کے لن کے احساس کو سوچ کر اپنی پھدی میں پوری قوت سے انگلی اندر باہر کر رہی تھی اب نادیہ کو یہ احساس نا رہا تھا کہ وہ۔اپنے ہی بھائی کو سوچ کر خود لذتی کر رہی ہے کچھ دیر بعد نادیہ کی کنواری پھدی نے اپنا پانی چھوڑ دیا اور وہ لمبی سانسیں لیتی سنبھلنے کی کوشش کرنے لگی کچھ دیر بعد نادیہ کو احساس ہوا کہ یہ اس سے کیا ہو گیا۔۔۔۔ جس گناہ اور غلط کام سے وہ بچ رہی تھی آج کیسے وہ خود اس خیال میں ڈوب گئی اور اس نے بھائی کے لن کے احساس کو سوچ کر خودلذتی کر ڈالی نادیہ حیران بھی تھی اور تھوڑی شرمسار بھی کہ جس گناہ سے وہ اتنا بچتی آئی تھی اور اسے نفرت تھی ناجانے کیسے وہ آج اسی سب میں پڑ گئی نادیہ اب شرمسار تھی اور خود سے وعدہ کرتے کہ آئیندہ وہ ایسا خیال کبھی نہیں کرے گی اور پھر اپنی شادی کہ بارے سوچنے لگی اور دعا کرنے لگی کہ اب جلدی اس کہ شادی ہو تاکہ وہ اس سب سے نکل کر ایک نارمل زندگی گزارے اور اسے شوہر کا پیار اور ساتھ ملے جس سے وہ حسن جیسے گناہ سے چھٹکارا پا سکے مگر اب نادیہ کے دل اور جسم میں حسن کی لگائی چنگاری کام کر چکی تھی 

حسن بھی باجی کے نام۔کی۔مٹھ لگا کر اپنی آگ کو تھوڑا ٹھنڈا کر کے سو گیا 

اگلی صبح نادیہ حسن سے کافی نظریں چرا ہی تھی اور پوری۔کوشش کر رہی تھی کہ۔وہ۔حسن۔کو۔نا دیکھے وہیں حسن بھی نادیہ سے نظریں چرا رہا تھا سور زیادہ ٹائم کمرے میں ہی رہا کیونکہ وہ اب ڈرا ہوا بھی تھا مگر سسے بار بار یہ سوچ آ رہی تھی کہ آخر اتنا سب ہونے کے باوجود بھی باجی نے امی ابو کو کیوں نہ۔بتایا کہیں باجی۔کو۔وہ۔سب اچھا تو نہیں لگا ایک طرف اسے یہ ہلکی آمید مل چکی تھی اور وہ اب اپنے اگلے داؤ لگانے کا موقع ڈھونڈ رہا تھا 

دوپہر کی چاۓ پر حسن صحن میں بیٹھا امی سے باتیں کر رہا تھا وہیں نادیہ بھی امی کی دوسری سائیڈ بیٹھی تھی تبھی حسن کا ابو کھیتوں سے واپس آیا اور حسن کے پاس بیٹھ گیا نادیہ۔جلدی۔سے اٹھی۔اور ابو کو پانی۔لا۔کر۔دیا ابو نے تھوڑا سا پیا اور گلاس واپس کر دیا 

حسن نے ابو کو دیکھا تو وہ پریشان سے لگے اور سوچوں میں گم تھے وہیں حسن کی ماں نے بھی ان کی پریشانی بھانپ لی اور بولی کیا۔ہوا حسن کے ابو سب خیر تو ہے پریشان لگ رہے ہو 

جس پر حسن کے ابو خاموش رہے ان کی خاموشی ڈے صاف ظاہر ہونے لگا کہ کچھ بات تو ہے حسن بھی جلدی۔سے ابو کے کاندھے پر ہاتھ رکھتے بولا ابو کیا ہوا 

حسن کے ابو نے ایک لمبا سانس لیا کچھ دیر خاموشی کے بعد نادیہ۔کو۔بولے تم اندر جاؤ نادیہ۔یہ۔سن۔کر اندر کچن میں بلی گئی اور کھڑی سے چپ کر سننے لگے 

اجی بتا بھی دو کیا ہوا میرا تو دل بیٹھا جا رہا حسن کی ماں تھوڑا گھبراتے بولی 

رشتے والوں نے رشتے سے انکار کر دیا ہے 

یہ سن کر تو نادیہ کے پاؤں تلے زمین نکل گئی اس کی آنکھوں میں آنسوں جاری۔ہو گئے 

امی: کیا انکار۔۔۔۔مگر وہ تو رشتہ پکا کر گئے تھے آخر کیا ہوا کیوں انکار کیا روتے ہوۓ بولی و پریشانی سے بولے ان کو کوئی اور رشتہ مل گیا مجھے تو لڑکے کے ابو نے کال کر کے بس یہی کہا کہ ہمارا بیٹا نہیں مان رہا اس لیے رشتہ نہیں ہو سکتا مگر باقی باتیں مجھے احمد نواز نے بتائیں احمد نواز حسن کے ابو کے دوست اور محلے کے بزرگوں میں شامل شریف انسان تھے اور یہ رشتہ بھی وہی لے کر آۓ تھے 

امی: کیا باتیں۔۔۔۔۔ کیا کہا اس نے 

ابو: اس نے کہا کہ ان کو کوئی اور اچھا رشتہ مل گیا لڑکی کی۔عمر بھی چھوٹی ہے اور کھاتا پیتا گھرانا ہے نادیہ کا۔کہہ رہے تھے کہ عمر میں بڑی ہے اور تھوڑا بھاری جسم کی ہے جس سے اور زیادہ ںڑی لگتی ہے 

امی تو بس بدعائیں دینے لگی اور رونے لگی وہیں نادیہ کا براحال تھا اپنے جزبات چھپاۓ وہ کمرے میں یہ سب سن کر بستر پر جا لیٹی اور رونے لگی 

حسن کو بھی۔یہ سب سن کر بہت برا لگا کیونکہ وہ اس حق میں تو ہرگز نا تھا کہ نادیہ۔کہ شادی نہ۔ہو کیونکہ وہ یہ تو اچھی طرح جانتا تھا کہ نادیہ کبھی اس کی نہیں ہو سکتی سو اس کا کہیں رشتا ہونا لازمی تھا سارا گھر اس سب کے بعد کافی پریشان اور اداس تھا وہیں نادیہ کے خواب جو اب چکنا چور ہو چکے تھے روۓ جا رہی۔تھی اور اپنی قسمت اور نصیب پر بین کر رہی تھی 

رات کو حسن اپنے کمرے میں تھا سور خاصا پریشان بھی اسے بار بار باجی۔نادیہ۔کا خیال آ رہا تھا جو دوپہر سے بھوکی پیاسی کمرے میں پڑی تھی اور امی بھی اس سب کا قصور نادیہ پر ڈالے اسے دیکھنے کو بھی راضی نہیں تھیں حسن نے سوچا کہ وہ جا کر باجی کو دلاسہ دے اور اس وقت میں ان کا ساتھ دے یہ سوچ کر وہ بستر سے اٹھا اور نادیہ کے کمرے کی طرف چلا گیا 

کمرے کا دروازا کھلا تھا مگر لائٹ بند ہونے کی وجہ۔سے اسے کچھ نظر نہیں آ رہا تھا حسن نے لائٹ آن کی تو اس کی نظر نادیہ۔پر پڑی جو چارپائی پر بےسدھ لیٹی پڑی تھی نادیہ کی ٹانگیں لٹک رہی تھی اور وہ تکیہ میں منہ۔چھپاۓ پڑی تھی تبھی کمرے میں لائٹ آن ہونے سے اس نے منہ اٹھا کر دیکھا تو سامنے حسن تھا اور وہ اٹھ کر بیٹھ گئی اور اپنے آنسو صاف کرنے لگی  حسن باجی۔نادیہ کے آنسو سے بھرا چہرا دیکھ کر اس کا دل بھی بیٹھ گیا حسن بنا کچھ بولے نادیہ کے ساتھ جا بیٹھا 

حسن کو کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ وہ کیا بولے 

حسن: باجی آپ پریشان نا ہوں دیکھنا اس ڈے بھی اچھا رشتہ آۓ گا نادیہ۔کو۔حسن۔کی یہ بات اچھی نا لگی کیونکہ جوانی چڑھتے ہی نادیہ اسی انتظار میں تو تھی اور کئی بار ایسی ہی اس کو ٹھکرایا گیا تھا وہ روتے ہوۓ بولی کب آۓ گا۔۔ سب بکواس ہے میری قسمت نصیب میں نہیں لکھا میں ہمیشہ بوجھ بن کر رہوں گی تم۔لوگوں پر اس سے اچھا تو مر جاتی

حسن کو نادیہ کی یہ باتیں اور اداس کر گئی اس نے نادیہ کا سر اپنی باہوں مین لیتے سسے گکے لگا لیا سور بولا نہیں باجی۔ایسی۔بات نہیں ہے تم۔کسی۔پر بھی بوجھ نہیں ہو آپ نے ایسا کیوں سوچا میں ہونا آپ کے ساتھ بس چپ کر جاؤ سب ٹھیک ہو جاۓ گا حسن نادیہ۔کو گکے لگاۓ دلاسے دیے جا رہا تھا سور نادیہ اس کے گلے لگ کر اپنا دکھ کم کر رہی تھی دونو بہت دیر یونہی بیٹھے رہے نادیہ۔کو۔ایک عجیب سا سکون مل رہا تھا اور پھر نا جانے کب روتے روتے وہ وہیں سو گئی حسن کو جب محسوس ہوا تو اس نے باجی کو آرام ڈے بستر پر لیٹا دیا ان کی ٹانگیں بھی اٹھا کر سوپر کی سور بستر ان کے اوپر کر کے اپنے کمرے میں آ کر سو گیا 

اگلی صبح۔نادیہ چپ چپ سی تھی وہیں حسن کی ماں اب سارا قصور نادیہ پر ڈال۔کر۔اس سے نفرت سی کر رہی تھی اسی لیے نادیہ باہر کم نکلی دن کیسے تیسے کر کے گزر گیا مگر نادیہ اب دل ہار بیٹھی تھی اور خود کو ایک بوجھ اور معاشرے کے بناۓ اصولوں اور لوگوں سے نفرت اس کے دل میں بس چکی تھی 

رات کو کھانے کے بعد سب اپنے کمروں میں چلے گئے وہیں حسن بھی اپنے کمرے میں آ کر بستر پر لیٹ گیا حسن سارا ٹائم نادیہ کے بارے سوچتا رہا اور اسے امی ابو پر بھی غصہ تھا کہ وہ نادیہ سے ایسا غیروں جیسا سلوک کیوں کرنے لگے آخر اس رشتہ کے انکار میں اس کا تو کوئی قصور نا تھا حسن آج پھر چاہتا تھا کہ وہ جا کر نادیہ کو دلاسہ دے کیونکہ آج بھی نادیہ کافی پریشان اور کمرے میں ہی رہی مگر پھر اسے خیال آیا کہ کہیں نادیہ یہ نا سمجھے کہ میں پھر اپنے جسمانی سکون اور لزت کی خاطر اس کی طرف جا رہا اور یہ سوچ کر وہ لیٹا رہا 

نادیہ اب پھر اپنی بےبسی لاچارگی اور خود کو بوجھ سمجھ کر کمرے میں لیٹی روۓ جا رہی تھی اسے بہت اکیلا محسوس ہو رہا تھا اور اب اسے پھر سے کل کہ جیسے حسن کی تسلیوں اور دلاسوں کی ضرورت تھی نادیہ کا دل۔کر۔رہا تھا کہ آج حسن پھر آۓ اور اسے دلاسہ دے تاکہ اس کا اکیلا پن اور بوجھ ہونے کا احساس کم ہو مگر حسن تو نا گیا سور نادیہ کافی دیر پڑی روتی رہی رات کا پچھلا پہر تھا حسن اب تک سو چکا تھا مگر نادیہ ابھی تک جاگے رو رہی تھی اس دنیا اور لوگوں سے تنگ اسے کافی اکیلا محسوس ہونے لگا جیسے اس کا دم گھٹ رہا ہو اور تبھی وہ اٹھی اور حسن کے کمرے پر جا کر دروازہ کھٹکھٹانے لگی حسن کی آنکھ جونہی کھلی تو وہ حیرانگی سے سوچنے لگا کہ رات کہ اس پہر کون ہے اور اٹھ کر دروازہ کھولا تبھی اسے سامنے باجی نادیہ کھڑی ملی جس کی آنکھیں آنسؤں سے بھری اور منہ لال تھا جیسے کب کی رو رہی ہوں حسن نے جلدی سے کہا باجی کیا ہوا نادیہ روتے ہوۓ نید نہیں آ رہی تھی میرا دل بیٹھا جا رہا یہ سن کر حسن جکدی سے انہیں اندر لے آیا اور بیڈ پر بیٹھا کر پانی دینے لگا نادیہ نے ایک دو گھونٹ پانی پیا تو اس کی حالت کچھ سنبھلی

حسن نے گلاس نادیہ کے ساتھ سے لیا اور ٹیبل پر رکھ کر ان کے ساتھ بیٹھ گیا 

حسن: باجی آپ کیوں اتنا پریشان ہو رہی ہیں پہلے بھی تو ایسا کئی بار ہوا اس سب کو آپ جتنا جلدی بھولیں گی اتنا اچھا ہے دیکھو تو کیا حالت بنا لی ہے 

نادیہ: روتے ہوۓ پہلے کبھی کسی رشتے سے ہاں کر کے ایسے انکار نہیں ہوا اور اب تو امی ابو بھی مجھے بوجھ سمجھ رہے جیسے یہ سب میرا قصور ہو

حسن: باجی آپ ان پر دھیان نہ دو میں ہو نا آپ کے ساتھ بس آپ یہ سب بھول جاؤ

نادیہ: کیسے بھول جاؤ اچھا کیا انہوں نے رشتے سے انکار کر دیا میں واقع اس قابل نہیں ہو بدصورت اور ایک بوجھ ہوں

حسن یہ سن کر نادیہ کا چہرا اپنے ہاتھوں میں تھامتے بولتا ہے نہیں باجی ایسی بات نہیں ہے آپ اتنی خوبصورت ہیں یہ میرے دل ڈے پوچھیں اور لوگ تو ایسے ہی ہوتے ہیں ان کو کیا فرق پڑتا ہے کسی سے جہاں کچھ اچھا دیکھا وہاں چلے گئے آپ ایسے گھٹیا لوگوں کی باتوں کو دل پر کیوں لے رہی

نادیہ کو حسن کی یہ باتیں اچھی لگ دہی تھی اسے تھوڑا سکون مل رہا تھا وہیں حسن اپنا پیار باجی پر نچھاور کرتے ان کو دلاسے دینے لگا نادیہ کی اب حالت کچھ سنبھل چکی تھی حسن اب باجی آپ سو جاؤ یہ بول کر اسے کمرے میں لے آیا اور نادیہ کو بستر میں لٹا کر اس کے سر کو سہلانے لگا نادیہ کو کافی سکون مل رہا۔تھا اور وہ فوراً سو گئی پھر حسن بھی کمرے میں آ کر سو گیا 

دن گزرنے لگےاب روز حسن یونہی رات کو باجی کے کمرے میں جاتا ان سے تھوڑی باتیں کرتا اور ان کو سلا کر کمرے میں آتا اب حسن اور نادیہ کے درمیان کافی دوستی سی ہو چکی تھی اور نادیہ اپنا غم بھلا کر دوبارا نارمل ہو چکی تھی وہیں جہاں حسن اب باجی کے خلاف اپنے پیار پر تھوڑا کنٹرول کیے ہوۓ تھے وہیں نادیہ۔کو اب حسن کا ساتھ اچھا لگنے لگا تھا اور وہ آۓ دن حسن سے کافی قریب ہوتی جا رہی تھی 

ایک رات جب سو سو گئے تو حسن معمول کے جیسے نادیہ کے کمرے میں گیا نادیہ بھی حسن کے انتظار میں تھی کیونکہ اب اسے حسن سے سر سہلاتے اور باتیں کرتے سونے کی عادت پڑ چکی تھی حسن کمرے میں گیا اور نادیہ کے بستر کے سرہانے بیٹھ گیا 

حسن: ہنستے ہوۓ ابھی تک باجی سوئی نہیں 

نادیہ نے بھی مسکراتے جواب دیا اب مجھے عادی بنا۔دیا اب کہاں ویسے نیند آتی ہے 

یہ سن کر حسن بھی مسکرا اٹھا اور پھر بولا باجی میرا صبح رزلٹ انا ہے یہ سن کر نادیہ بوکی دیکھنا تم پاس ہو جاؤ گے 

حسن: شکریہ باجی 

نادیہ: پاس ہونے کی خوشی میں مجھے کیا دو گے پھر یہ سن کر حسن مسکراتے بولا باجی جو آپ مانگوں جس۔پر۔نادیہ بھی مسکرا اٹھی اور بولی چلو وہ پھر میں سوچ کے بتاؤں گی 

یونہی باتیں کرتے اچانک نادیہ سائیڈ ہوئی اور بولی حسن لیٹ جاؤ بیٹھے بیٹھے تھک جاؤ گے یہ سن کر حسن کافی حیران ہوا کیونکہ کچھ دن پہلے تک جو کچھ ہوا تھا اس کے بعد باجی نادیہ۔حسن سے ایسے ڈرتی تھیں جیسے ان کی عزت لٹ رہی ہو اور حسن باجی سے ساتھ بہت کچھ کر اور بول بھی چکا تھا مگر پھر وہ مسکراتے ہوۓ باجی سے ساتھ لیٹ گیا چارپائی کافی چھوٹی تھی جس پر مشکل سے ایک بندہ لیٹ سکتا تھا حسن جونہی لیٹا اس کا۔جسم حد سے زیادہ باجی سے ٹھکرانے لگا باجی کی بھاری بھرکم گانڈ کا ایک حصہ حسن کی سائیڈ سے اچھا خاصا ٹچ ہو چکا تھا اور اچھا خاصا حسن کے جسم کے اوپر تھا حسن کی تو حالت خراب ہونے لگی اس کا لن اٹھ کر سخت ہونے لگا تھا جسے وہ بات بار روکنے کی کوشش کر رہا تھا مگر نادیہ۔کہ۔جسم سے ٹچ ہونے کہ بعد اسے روکنا کہاں ممکن تھا حسن سیدھا لیٹا تھا جس۔کی۔وجہ۔سے اس کا کھڑا لن کپڑوں سے صاف ظاہر ہونے لگا جو تمبو بناۓ کھڑا تھا نادیہ کی نظر حسن کے لن پر جا چکی تھی اور اسے یہ احساس بہت مزہ دے رہا تھا نادیہ۔نے یہ آفر جان بوجھ کر حسن کو دی۔تھی کیونکہ اب نادیہ معاشرے اور لوگوں کے اصولوں کو۔توڑ کر اپنی زندگی جینا چاہتی تھی نادیہ کو بھی اب حسن کہ جسم میں مزہ آنے لگا تھا اور وہ اب سوچ چکی تھی کہ اب وہ۔بھی ایک بری لڑکی بن کر صرف اپنا مزے اور سکون کے ںارے سوچے گی 

حسن اور نادیہ یونہی لیٹے باتیں کرتے رہے مگر دونو کا دل و دماغ اب کہیں اور تھا نادیہ پہلی بار کسی مرد کے جسم کے احساس کو محسوس کر رہی تھی وہیں حسن باجی نادیہ کے جسم کے مزے لینے میں مشغول تھا اور ڈر بھی رہا تھا کہ کہیں پھر باجی کو کچھ برا نہ لگ جاۓ کچھ دیر بعد حسن اٹھ کر کمرے میں آ گیا تب تک نادیہ نید کی آغوش میں جا چکی تھی

حسن اب ایک الگ کشمکش میں تھا ایک طرف نادیہ کا وہ رویہ تھا جو کچھ دن پہلے حسن سے نفرت کرتی تھی اور اس کے قریب تک نہیں آتی تھی وہیں آج اس نے خود حسن کو ساتھ لیٹ جانے کا کہا اور کافی دیر حسن اور نادیہ کے جسم کے اعضاء اپس میں چپکے رہے حسں نے سوچا شاید نادیہ پریشان اور اکیلی تھی اور اسی وجہ سے اس نے حسں کو دوبارہ قریب آنے دیا اور اگر اس نے پھر کوئی غلطی کی تو نادیہ حسن کا اعتبار بھی کھو بیٹھے گی اس لیے حسن نے اپنے پیار اور جزبات پر قابو رکھنے کا سوچا 

اگلی صبح حسن کی جونہی آنکھ کھلی تو اس کی نظر باجی نادیہ پر پڑی جو اس کے سرھانے کھڑے معمول کے مطابق اسے کندھے سے ہلاتے جگا رہی تھی باقی سب کو معمول جیسا تھا مگر آج کچھ خاص بھی تھا جسے دیکھ حسن کی نید غائب ہو گئی اور اس کی نظریں باجی پر جم گئی 

نادیہ نے آج کوئی ڈوبٹا نہیں کیا ہوا تھا اور نادیہ کے 36 کے ممے اس کی تنگ قمیص میں تنے کھڑے تھے حسن یہ نظارہ دیکھتے ہی چونک سا گیا وہیں نادیہ اسے جگا کر ایک ہلکی سی مسکراہٹ بکھیرتے پیچھے کو مڑی اور کمرے سے نکلنے لگی حسن کی نظر ابھی تک نادیہ پر جمی ہوئی تھی ڈوبٹا نا ہونے کی وجہ سے نادیہ کے جسم کا ایک ایک حصہ کے خدو خال حسن کو صاف نظر آ رہے تھے حسن کے جسم میں آیک آگ ڈی بھڑک اٹھی نادیہ اپنی موٹی گانڈ ہلاتے کمرے سے نکل گئی اور حسن بھی اٹھ کر باتھروم چلا گیا حسن نہاتے بھی بار بار وہی سب سوچ رہا تھا کہ آخر چل کیا رہا جو بانی پہلے گھر میں بھی ایسے ڈوبٹا کیسے رکھتی تھی جیسے بازار میں گھوم رہی ہوں اور اپنے جسم کو مجھ سے چھپاتی تھی وہیں آج وہ اس قدر فحش اور قاتلانہ انداز میں سامنے کیسے آ گئی 

وہیں نادیہ جو اب حسن کی جانب مائل ہو چکی تھی اور حسن کی وہ سب باتیں جو اس نے جسموں کی خواہش اور نادیہ کی محبت میں کہی تھی اسے اب سب اچھا اور صحیح لگ رہا تھا نادیہ بھی ٹھان چکی تھی کہ اس بےدرد معاشرے میں شرافت کی کوئی جگہ نہیں اور اسی وجہ سے ہی وہ بنا ڈوبٹے حسں کے سامنے گئی کیونکہ حسن کا ایسے پاگلوں جیسے نادیہ کو دیکھنا اسے مزہ دینے لگا تھا 

حسن نہا دھو کر حسن میں امی کے پاس جا بیٹھا تبھی نادیہ بھی اس کا ناشتہ لیے پھر سے بنا ڈوبٹے اس کے سامنے چلی گئی حسن ایک بار پھر نادیہ کو بنا ڈوبٹا سامنے دیکھ کر اسے گھورنے لگا نادیہ کا ڈوبٹا سر پر تو تھا مگر اس کے مموں کا ابھار اور گانڈ ابھی خالی تھی حسن کو باجی کا ایسا انداز اور پاگل کر گیا نادیہ حسن کو ناشتہ دے کر صحنِ میں چھاڑو لگانے لگی اور اب کی بار جھک جھک کر حسن کو خوب اپنے طوفانی جسم کے نظارے کروانے لگی نادیہ جانتی تھی کہ حسن اسے کسی بھوکھے شیر کی مانند دیکھ رہا ہے حسن کی ہمت جواب دے رہی تھی اس کا بس چلتا تو وہیں باجی کو گھوڑی بنا کر ان کے حسین وادیوں میں اپنا شیطان گھسا دیتا مگر صحن میں بیٹھی امی اس کے ارادوں کے درمیان دیوار تھی حسن سمجھ گیا کہ نادیہ بھی لائین میں آ چکی ہے اور اس کا راستہ صاف ہے سو اب وہ کسی اچھے موقع کی تلاش میں تھا 

دن گزرنے لگے حسن اور نادیہ کے درمیان جسم دیکھانے کا کھیل چلتا رہا نادیہ اب حسن سے بنا شرماۓ اسے اپنے جسم کے سارے نظارے دیتی وہیں حسن بھی نادیہ کے سارے انداز دیکھ اندر ہی اندر جلتا مگر اب دوبارا کچھ کرنے کی ہمت نا جٹا پا دہا تھا وہیں نادیہ بھی بھائی کے پیار کو پانے کے لیے بیتاب تھی اور ایسے انداز دیکھا کر حسن کو سمجھانے کی پوری کوشش کر رہی تھی کہ اس کی بہن کی پھدی میں لگی آگ اب اس کے بھائی کے لن سے ہی بجھے گی مگر حسن ڈر کے مارے اب کچھ زیادہ کرنے سے کبھرا دہا تھا 

پھر ایک دن حسن گھر پر ہی تھا ابو کام پر جا چکے تھے اور امی ڈاتھ والی آپا کے ساتھ بازار کو چل دی حسن سمجھ گیا کے اج موقع اچھا ہے اور باجی اکیلی بھی ہیں نادیہ بھی اندر ہی اندر خوشی سے جھوم رہی تھی اور اسی انتظار میں تھی کہ حسن آج آ کر اسے دبوچ لے 

کچھ دیر حسن بیٹھے سوچتا رہا ہمت اس کا ساتھ نہیں دے رہی تھی حسن خود سے بار بار کہہ رہا تھا کہ کچھ نہیں ہوتا باجی کا اپنا بھی دل ہے مگر پھر کہیں سے اس کے اندر سے آواز آتی کہ نہیں باجی برا بھی منا سکتی ہیں آخرکار حسن نے ہمت کی اور صحن میں نادیہ کے ساتھ چارپائی پر جا بیٹھا حسن تھوڑا نروس تھا وہیں نادیہ بھی اندر کی اندر اس انتظار میں تھی کہ کب حسن پھر اسے دبوچ لے حسن کچھ دیر چپ بیٹھا رہا کچھ کرنے کی ہمت حسن میں نا ہوئی نادیہ بھی سمجھ گئی اور اٹھ کر کچن میں آ گئی اب دونو کی خاموشی اور انداز صاف بتا رہے تھے کہ سب راستے صاف ہیں حسن نے اب ایک لمبا سانس لیا اور اٹھ کر کچن میں چلا گیا نادیہ چپ چاپ کھڑکی کی طرف منہ کیے کھڑی رہی حسن کچھ دیر رکا اور پھر آہستہ آہستہ نادیہ باجی کی طرف بڑھنے لگا اس کے دل کی دھڑکن تیز ہو چکی تھی وہیں نادیہ بھی حسن کو قریب آتے اس کے قدموں کی آہٹ کو محسوس کر رہی تھی حسن نادیہ کے بلکل قریب پیچھے جا کھڑا ہوا ابھی اس کا جسم نادیہ کے جسم سے ٹکرایا نا تھا حسن نے ایک دم پیبھے دیکھا اور پھر ایک قاتلانہ مسکرہٹ دے کر شرماتے ہوۓ اپنے منہ پر ہاتھ رکھ لیا حسن یہ دیکھ کر تو مانو باجی کے پیار میں پاگل ہو گیا حسن نے فوراً نادیہ کو اپنی باہوں میں لیا اور اسے چومنے لگا نادیہ بھی اب حسن کا پھرپور ساتھ دے رہی تھی اور اپنی اندر لگی آگ کو بجھانے کی کوشش میں وہ بھی حسن کو پاگلوں جیسے چومنے لگی اب ایک گناہ کی باقاعدہ شروعات ہو چکی تھی زنابلجبر اب زنابلرضاع بن چکا تھا حسن اپنے ہاتھوں سے باجی نادیہ کی گانڈ کو مسلتا انہیں چومے جا رہا تھا نادیہ کے ہونٹ حسن نے اپنے منہ میں دبا رکھے تھے اور انہیں ایسے چوس رہا تھا جیسے ان سے شہد نکل رہا ہو کافی دیر حسن کو نادیہ ایک دوسرے کر لپٹے چومتے رہے اور انہیں وقت کا اندازہ بھی نا ہوا تبھی امی مین گیٹ سے گھر داخل ہوئی تبھی حسن اور نادیہ علیحدہ ہوۓ حسن کمرے میں چلا گیا اور نادیہ کام میں مصروف ہو گئی 

حسن کافی خوش تھا مانو جیسے اسے جنت کی حور مل گئی ہو اسے یقین نہیں آ رہا تھا کہ تھوڑی دیر پہلے جو کچھ ہوا وہ خواب تھا کہ سچ



ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے