اسی لیے حسن سونے کا بہانہ کیسے پڑا رہا نادیہ نے حسن کہ۔منہ سے رضائی ہٹائی اور بولی حسن میں جانتی ہوں جب جاگ رہے ہو اٹھو مجھے تم سے بات کرنی ہے حسن نا چاہتے ہوۓ بھی آنکھیں کھولیں اور سر جھکا کر بیٹھ گیا نادیہ بھی حسن کے بیڈ کی سائیڈ پر بیٹھ گئی اور حسن کا منہ اپنے ہاتھ سے اوپر کرتے بولی حسن سوری آج جو بھی ہوا اس سب کو دل پہ نا لو میں معافی مانگتی ہوں حسن کو یہ آمید کر رہا تھا کہ باجی اس کی بے عزتی کریں گی اور اس کو ڈانٹیں گی سوری سن کر چونگ گیا اور بولا باجی آپ کیوں سوری کر رہی غلطی میری تھی مجھے بہت افسوس ہے
نادیہ: نہیں حسن تمھاری غلطی نہیں تھا مجھے خیال کرنا چاہیے تھا تنھارا تو اپنا کمرا ہے ظاہر ہے پہلے بھی آتے ہو تمھیں کیا پتا تھا اصل میں امی گھر پر نہیں تھیں نا ابو تو کپڑے دھونے لگی تو سوچا اپنے بھی دھو دون اور پھر کمرے میں ہی تبدیل کرنے لگی کہ گھر پر کوئی ہے نہیں
حسن: کوئی بات نہیں باجی
نادیہ: پر تم نے اتنی ٹینشن دی کہاں چلے گئے تھے اور کال تک بھی نہیں اٹھائی تمھیں پتا بھی تھا میری کیا حالت تھی
حسن: کہیں نہیں باجی دوست کے ساتھ تھا گھر آکر اپ سے نظریں ملانے کی ہمت نہیں تھی اس لیے
نادیہ: پاگل انسان اور جو میری ہمت نکل رہی تھی کچھ دیر اور نا آتے کو میری جان نکل جاتی
نادیہ کی یہ بات مانو حسن کی جان نکال لے گئے اللہ نہ کرے باجی کیسی باتیں کر رہی دوبارا ایسا کبھی سوچنا بھی مت اللہ نہ۔کرے اپ کو کچھ ہو اللہ کرے آپ کی جگہ میری جان نکل جاۓ
نادیہ حسن کا ایسا احساس اور باتیں سن کر ایک بار پھر مچل اٹھی اور پھر حسن کے منہ پر پیار سے تھپڑ مارت بولی مجھے کہتے ہو اور جو خود مرنے کی باتیں کر رہے میرے ایک ہی اکلوتے بھائی ہو میری ڈاری زندگی کی امیدیں تم سے جڑی ہیں تمھیں کبھ نا ہو بس اور یہ بول کر حسن کو گلے لگا لیا
حسن جو اب کچھ اچھا محسوس کر رہا تھا باجی کہ۔گلے لگتے ہی اس کہ اندر کا شیطان جاگ گیا حسن کا سر نادیہ کے نرم وملائم داہنے گاندھے پر تھا اس کو اس کاندھے کا ریشمی ملائم احساس ایک بار پھر پگل۔کر۔گیا نادیہ۔اس سے پہلے بھی کئی بار حسن کو ماتھے پر چوم اور گلے لگا چکی تھی مگر تب حسن اسے بہن جیسا سمجھتا تھا تو کبھی نوٹ نہ کیا مگر آج اسے کچھ اور ہی محسوس ہو رہا تھا نادیہ ویسے ہمیشہ حسن کو۔گلے لگاتے یہ خیال رکھتی تھی کہ اس کے ممے یا جسم۔کی۔کوئی۔ایسی۔جگہ۔حسن۔سے ٹچ نہ ہو اور آج بھی نادیہ کے ممے حسن کے جسم سے تو دور تھے نگر آنکھوں کے سامنے تھے حسن نادیہ۔کے گلے لگے اس کے مموں کو گھورتے اس کے بدن اور کپڑوں سے اتی خوشبو کو محسوس کرنے لگا اور نادیہ کی دن بدن ایسی چیزیں حسن کو پاگل سے پاگل تر بناتی جا رہی تھی
پھر نادیہ پیچھے ہو کر بیٹھ گئی اور حسن کہ چہرے پر ہاتھ سے پیار کرتے بولی آج جو بھی ہوا اس کو بھول جاؤ اور دل میں نا رکھنا میں سوری کر رہی اور بہن نا سہی دوست سمجھ کے دل سے معاف کر دینا
حسن جو دل۔ہی دل میں سوچ رہا تھا کہ باجی میں تو الٹا آپ کا شکریہ ادا کروں کہ آپ نے اپنے دودھ جیسے جسم۔کا۔دیدار کروا دیا مجھ جیسا تو خوشنصیب کوئی ہے نہیں مگر ترس بھی میں ہی رہا مگر ان ڈب باتوں کو دل میں ہی رکھتے بولا نہیں باجی میں ناراض نہیں ہوں جس پر۔نادیہ۔مسکرا کر پیار سے اس کے ماتھے پر چوما
نادیہ جب حسن کے ماتھے پر چومنے کو اس کے قریب ہوئی تھی تبھی اس کے موٹے ممے حسن کے منہ۔کہ عین قریب تھے جو حسن کی جان نکال۔کر۔لے گئے ایک ترسا ہوا انسان جس کو ایسا لگ رہا تھا جیسے باجی کے ممے اسے کہہ رہے ہوں کہ۔ہم خوبصورت ترین مموں کو دیکھو اتنے بڑے اور خوبصورت ہیں مگر تمھارے ہاتھ کبھی نہیں آئیں گے نادیہ حسن کے بیڈ کی سائیڈ پر بیٹھی تھی اور حسن بستر میں گھسا بیٹھا تھا حسن کا دل تھا کہ نادیہ باجی کاش اس کے ساتھ بستر میں آ بیٹھتی اور اسی وجہ سے وہ بولا باجی آپ کو سردی لگ رہی ہو گی بستر میں آ جائیں اندر جس پر نادیہ سردی سے سسسسی کرتی بوکی ہاں واقعی سردی تو ہے پر تمھیں تنگ نہیں کرتی تم سکون سے سو جاؤ میں بھی سوتی ہوں اور ایک ںار پھر حسن سے سوری کر کے اس کے ماتھے پر چوما اور اپنے بستر پر جا کر سو گئی
حسن کی امیدوں پر پانی پھر گیا ویسے اس سے پہلے ایک دو بار حسن اور نادیہ اکھٹے بستر میں بیٹھ چکے تھے مگر تب حسن کی سوچ باجی کہ لیے ایسی نہ تھی مگر آب تو وہ باجی کا ایک اندھا عاشق بن چکا تھا جو اپنے جزبات دباۓ سونے لگا حسن اپنے بستر میں گھس کر باجی کے بارے سوچنے لگا باجی اب حسن کی سوچ پر پوری طرح ہاوی ہو چکی تھی سور حسن باجی کہ بارے سوچ کر 24 کھنٹے خوش رہتا تھا تبھی حسن کو دن والا واقع یاد آ گیا اور باجی کے خوبصورت بریزیر میں چھپے موٹے ممے اور شلوار میں چھپی گاند اس جی نظروں میں اترانے لگی حسن اپنے ہی خیالوں میں ڈوبا باجی کی ان نیم برہنہ جسم کو سوچ رہا تھا اور اس کا جنسون اور ولولہ پڑھتا ہی جا رہا تھا باجی کا وہ جسم جس کو دیکھ کر کوئی بھی کافر ہو جاۓ ان کی چھاتیوں کی گولائی مانو کسی نے اپنے ہاتھوں سے خاص ترشی ہو ان کے مموں کا ابھار جیسے کسی فٹ بال کو دو حصوں میں برابر کاٹ کر لگا دیا گیا ہو ان کی گانڈ کی خوبصورتی اور پیچھے کو نکلی اونچائی مانو جیسے پہاڑ کی چٹان ہو جس کو دور سے ہی دیکھا جا سکے مگر چڑھنا کسی کے بس کی بات نہ ہو نادیہ ایک سراپا حسن تھا جسے حسن ہی دیکھ پایا تھا اور حسن کی بری قسمت کے وہ جس پر اس قدر عاشق ہوا وہ اسے کبھی نہیں مل پاۓ گی
حسن اس ٹائم کو سوچنے لگا جب باجی اس کے سامنے ننگی کھڑی تھی اور ان کا ہرنے کے جیسے گداز جسم جسے دیکھ کر حسن کے ٹٹے گلے تک جا پہنچے تھے جس کو کپڑوں میں دیکھ کر حسن پاگل ہو جاتا تھا آج اسی جسم کو حسن نے نیم برہنہ دیکھ لیا تھا اور حسن کی زندگی میں یہ تھا بھی پہلی بار کہ کسی لڑکی کو اس نے اس طرح دیکھا ہو حسن مستی اور لزت کی دنیا میں اس قدر مگن اور ڈوبا تھا کہ اسے معلوم بھی نہ پڑا کہ کب اس کا ہاتھ اس کے لن تک پہنچ کر اسے سہلانے لگا تھا
حسن اب خیالوں میں ہی سوچ رہا تھا۔کہ۔اس کی باجی ننگی۔کھڑی۔تھی۔اور وہ ان کہ قریب جا کر ان۔کے جسم۔کو چھونے چومنے اور چاٹنے لگا حسن کو یہ سب سوچ کر باجی نادیہ پر انتہا تھا پیار اور سرور آ رہا تھا حسن اپنے ہی خیالوں میں باجی۔نادیہ۔کو۔اپنی ہی مرضی کے جیسے پیار کر رہا تھا وہیں اس کا ہاتھ اس کے لن پر تیزی سے چلنا شروع ہو چکا تھا حسن سوچ رہا تھا کہ اس نے اپنی باجی کو باہوں میں پکڑا اور اپنا لن باجی کی پھدی پر رکھ مر ان کے مموں سے اپنا سینا ملا دیا اور اپنی باجی کہ اس نورانی چہرے جس پر وہ پاگل ہو چکا تھا۔اسے گھور رہا تھا وہیں باجی نادیہ اس کو مسکرتے ہوۓ دیکھ کر اس کے ہونٹوں پر چومنے لگی حسن اپنی خیال دنیا میں کافی مگن تھا اور یہ احساس اسے انتہا کی لذت دے رہا تھا حسن کا ہاتھ اب مٹھ لگانے میں کافی تیزی سے کام کر رہا تھا جس کی۔وجہ۔سے آج پھر کمرے میں ہلکی آواز شروع ہو چکی تھی وہیں رات کی خاموشی میں یہ ہلکی آواز کچھ زیادہ سننے اور محسوس کرنے والی تھی حسن اردگرد سے بے خبر مٹھ لگاۓ جا رہا تھا وہیں باجی نادیہ جو حسن سے تھوڑے ہی فاصلے پر اپنے بیڈ پر پڑی اپنی جاگ رہی تھی نادیہ ابھی تک۔حسن۔کے بارے سوچ رہی تھی اور جو کچھ آج ہوا اس کے بارے میں بھی کہ ناجانے کب تک وہ یوں گھر میں اکیلی رہے گی کاش کہ اس کا بھی کوئی مرد ہوتا جس۔کے سامنے کپڑے بھی بدل۔سکتی۔مگر وہ تو بھائی تھا جس نے غلطی سے اسے نیم برہنہ۔دیکھ لیا تھا نادیہ اپنی۔سوچوں میں گم تھی کہ۔اچانک اسے کمرے میں کچھ آوازیں آنے لگی۔ایسی۔آوازیں جو جانی پہچانی تھیں نادیہ اچانک ان آوازوں مو سمجھ گئی یہ تو وہی آواز ہے جو کچھ دن پہلے حسن مٹھ مارتے......نادیہ نے اپنی آنکھیں کھولیں اور حسن کے بستر کی طرف دیکھا۔تو حسن کا ںستر اوپر سے بری طرح ہلے جا رہا تھا نادیہ سمجھ گئی کہ حسن مٹھ مار رہا ہے اور اب نادیہ کو یہ سوچ تھوڑی شرمندہ بھی کر رکی تھی وہ ان آوازوں کو اگنور کرنے کی پوری کوشش کرنے لگی مگر حسن جس تیزی سے اج مٹھ مارنے میں مصروف تھا اس کا ناصرف بستر بلکہ اب پلنگ بھی ہلکی آواز کرنا شروع ہو چکا تھا اور ان آوازوں اور خیالوں کی وجہ سے اب نادیہ کی بھی حالت غیر ہو رہی تھی کیونکہ نادیہ بھی جوان اور کسی مرد کی قربت کی ترسی ہوئی تھی وہیں حسن کی مٹھ مارنا نادیہ کو کئی کئی دماغ میں خیال بنا۔کر۔دیکھا رہا تھا کہ نہ۔جانے حسن کس کو خیالوں میں اس طرح چودھنے میں مصروف ہے
کہتے ہیں کہ سیکس کی بھوک ایسی ہوتی ہے کہ انسان خود پر قابو نہیں رکھ پاتا اور یہی وجہ تھی کہ اب نادیہ کی بھی پھدی میں کھجلی ہونا شروع ہو چکی تھی اور وہ بھی اپنی پھدی کو سہلانے لگی
کچھ دیر ہی گزری تھی کہ نادیہ بھی اب پورے جوبن پر اپنی پھدی مسل۔رہی تھی اور اپنے ہی کسی رشتہ دار کو سوچ کر اس کا لن لیے میزوز ہو رہی تھی وہیں دوسری طرف حسن اپنے خیالات کی دنیا میں باجی نادیہ کو اپنا لن گھسا کر پوری طرح چودھنے میں مصروف تھا حسن اب فارغ ہونے والا تھا اور اگلے ہی لمحے اس کا لن ایک تیز طوفان چھوڑنے لگا ایک منی کا سیلاب حسن کے لن سے نکلا جس کے بعد حسن لمبی سانسیں بھرتا بےسدھ لیٹ گیا اور اپنا منہ رضائی سے باہر نکال لیا حسن اس سے پہلے بھی کئی بار مٹھ مار چکا تھا اور نا جانے کتنی عورتوں کو اپنے ہی خیالوں میں چودھ چکا تھا مگر جو مزہ اور لزت اسے آج اپنی ہی سگی باجی کو سوچ کر آئی وہ اس سے پہلے کبھی نہیں ملی تھی حسن نے جتنی لزت اور سکون حاصل کیا وہ اتنا ہی باجی کو حاصل کرنے کی تڑپ میں ڈوب گیا حالانکہ پہلے وہ جسن عورتوں کو سوچ کر مٹھ لگاتا تھا مٹھ لگانے کے بعد اس کی تڑپ کم ہو جاتی اور وہ سکون حاصل کرتا تھا مگر آج الگ ہوا تھا باجی کو سوچ کر مٹھ مارنے میں اسے مزہ تو حد سے زیادہ آیا تھا مگر اسے اب باجی کی طلب اور بڑھ گئی حسن یونہی پڑا کچھ دیر لیٹا رہا اور اب اسے تھکان کی وجہ ہلکی نیند آنے لگی تھی کہ اچانک اس کے کانوں میں ایک عجیب سی آوازیں آنے لگی
ہلکی پیچک پیچک کی آواز جو لگاتار چلتی جا رہی ہو جیسے کوئی کسی پانی سے بھرے برتن میں کچھ ڈال کر ہلا رہا ہو حسن نے پہلے تو نیند کے غلبے اور تھکان کی وجہ سے ان آوازوں کو اگنور کیا مگر یہ ہلکی آواز آب تھوڑی۔تیز اور اونچی ہو چکی تھی جس وجہ سے حسن ناچاہتے ہوۓ بھی آنکھیں کھول کر دیکھنے لگا کہ آخر یہ آواز کیسی ہے کمرے میں ہلکی روشنی تھی حسن نے ادھر ادھر دیکھا تو وہیں اسے یہ اندازہ ہوا کہ ہہ آواز باجی کے بستر سے ا رہی ہے تبھی حسن کی ساری نیندیں اڑ گئی جب اسے سمجھ آئی کہ یہ کسی آواز ہے حسن سمجھ گیا کہ باجی نادیہ اپنے پھدے میں انگلی کر رہی ہیں کیونکہ حسن اب جوان تھا اور حرامی دوستو کی وجہ سے اسے لڑکیوں کی ان سب باتوں کا علم تھا مگر حسن کے لیے یہ انتہائی حیرانگی کی بات تھی کیونکہ وہ ںاجی نادیہ کو بہت سلجھی اور نیک سمجھتا تھا اور اس سے پہلے اس نے ایسا کبھی سنا بھی نہیں تھا
وہیں نادیہ جو پہلے انکلی کرتے پورا خیال رکھتی تھی مگر آج وہ بھی مستی میں اس قدر مست تھی کہ بنا کسی خیال کہ اپنی پھدی میں پوری قوت سے انگلی چلاۓ جا رہی تھی اور پھر کچھ دیر بعد نادیہ بھی اپنے انجام کو پہنچی اور اس کی کنواری پھدی نے ایک منی کا سیلاب باہر انڈیل ڈالا نادیہ کی ایک سسکی بھری آواز بھی نکلی جسے حسن سن کر پاگل سا ہو گیا نادیہ فارغ ہوتے ہی چونکی کہ کہیں حسن کو۔کوئی آواز تو نہیں گئی یا وہ جاگ تو نہیں رہا تھا اور جب اس نے حسن کی جانب دیکھا تو وہ سو رہا تھا جس پر نادیہ مطمئن ہو کر سو گئی مگر حسن کو یہ سب سن کر آج ایک اور الگ احساس میں تھا حسن سوچنے لگا کہ نادیہ باجی ایسا کیسے کر سکتی ہیں وہ تو خاصی شریف سلجھی اور کافی مزہبی قسم کی ہیں اور اس سے پہلے تو کبھی باجی کو ایسا کچھ کرتے اس نے نہیں سنا تھا نا کبھی کسی خاندان کے لڑکے کے ساتھ باجی کا آنکھ مٹکا دیکھا حسن کو باجی کو پارسائی کی دیوی سمجھتا تھا پھر اچانک اسے خیال آیا کہ ظاہر وہ بھی ایک عورت ہے اور اس میں بھی خدا نے جزبات ڈالے ہیں اور اس عمر میں بھی شادی نہ ہونے کے باوجود وہ کبھی اپنی تنہائی یا جسمانی خواہشات کو ظاہر نہیں کر پائی وہیں گھر کی سخت پابندیوں اور مذہبی ہونے کی وجہ سے وہ کسی خاندان کے مرد کو حقیقت میں کچھ کہہ بھی نا پائی تو اگر آج وہ اپنے جسمانی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے خودلذتی کر رہی ہیں تو شاید وہ غلط نہیں ہیں اب حسن کی سوچ بدل چکی تھی اور اس نے جو کچھ سنا اور سوچا اس کی بوکھ اور باجی کی تڑپ اور بڑھ گئی حسن کو اب یہ سن کر اچھا لگا کہ باجی بھی ایک عورت ہیں اور ان کو بھی ان سب چیزوں کی ضرورت ہے بس وہ گھر اور معاشرتی پابندیوں کی وجہ سے خاموش رہتی ہیں یہ حسن کے لیے ایک اور پوائنٹ تھا جہاں اسے باجی کی طرف سے اشارہ ملا حسن اب ٹھان چکا تھا کہ وہ باجی کو جسی سکون ضرور دے گا اور ان کو دوست ںن کر باقی لوگوں کے جیسے بہنوں کو بھیڑ بکری نہیں سمجھے گا اور باجی کی ضروریات کو پورا کرے گا چاہے پھر کوئی اور مرد ہو۔یا۔وہ۔خود
حسن یہ سب سوچتے سو گیا کافی دیر بعد اسے نید آئی
اگلی صبح جونہی حسن کی انکھ کھلی پھر وہی باجی کا نورانی چہرا اس کے سامنے تھا جس کو دیکھ کر اب حسن کی ہر صبح سوہانی۔ہوتی۔تھی۔حسن۔مسکرتے ہوۓ اٹھا اور تیار ہونے لگا اب حسن کی سوچ باجی کے بارے ںدل چکی تھی اور اس کا ڈر تھوڑا کم ہو چکا تھا کیونکہ اب باجی کو بھی وہ سب کرتے اور محسوس کرتے اس نے سن لیا تھا نادیہ اس سب سے انجان تھی کہ حسن یہ سب جانتا ہے اور رات کو اس کی خودلذتی کو حسن نے سن لیا تھا
ناشتہ کرتے حسن بری طرح باجی کو گھورے جا رہا تھا نادیہ کا حسن پر دھیان نہیں تھا مگر جونہی نادیہ کی نظر حسن پر پڑی تو اسے خاصا عجیب سا لگا حسن نادیہ کو ایک عجیب نظر سے گھور رہا تھا چونکہ نادیہ بھی اب بچی نہ۔تھی۔نظروں کو پہچاننا جانتی تھی مگر تب تک حسن کی نظریں پکڑی جا چکی تھی اس لیے حسن نظریں چراۓ ناشتہ کرنے لگا اور پھر سکول کو۔نکل۔پڑا آج۔حسن۔کا۔پہلا پرچہ تھا حسن کی تیاری کچھ خاص نہ۔تھی۔ماں نے نکلتے وقت دعائیں دی۔وہیں نادیہ نے بھی گڈلک بول۔کر بھائی کو روانہ کیا حسن کے جاتے ہیں نادیہ ناشتہ کی برتن سمیٹنے لگی اور اب اس کی سوچ بار بار حسن کی جانب جا رہی تھی نادیہ۔سوچ رہی تھی کہ اخر حسن اسے ایسے کیوں دیکھ رہا تھا کہیں وہ کسی گناہ کی طرف تو نہیں۔۔۔۔ نہیں نہیں یہ۔میرا وہم ہے شاید حسن میرا بھائی ہے اور میری عزت بھی کرتا ہے وہیں بڑی باجی ہونے کے ناطے ماں کا درجہ دیتا ہے پھر وہ مجھے کسی ایسی نظر سے کیوں دیکھے گا یہ شاید۔میرا ہی وہم ہے نادیہ۔نے اپنی سوچوں کو جھنجوڑا اور پھر اپنے آپ کو تسلی دے کر کام میں مصروف ہو۔گئی نادیہ کو ایک مرد کی ضرورت تو واقعی تھی مگر وہ مرد اس کا بھائی ہو ایسا اس نے کبھی سوچا نہیں تھا کیونکہ یہ ایک غیر فطری اور غیر معاشرتی عمل تھا جس کی وجہ سے اس کی سوچ کبھی اس سائیڈ نہ گئی مگر وہ اس بات سے بھی انجان تھی کہ حسن تو نا جانے کن حدود کو پار کر چکا ہے اور اب حسن کا بس نہیں چلتا ورنہ وہ اپنی ہی باجی سے شادی کر لیتا
دوپہر کو حسن اپنا پیپر دے کر گھر کو لٹا گھر میں نادیہ۔اکیلی تھی جو صحن میں چارپائی پر بیٹھی کسی اپنے پرانے جوڑے پر ہاتھ سے لیس لگانے میں مصروف تھی نادیہ۔نے جونہی حسن کو آتے دیکھا تو سلام کر کے اس کے پیپر کے بارے پوچھا
نادیہ: اسلام علیکم حسن کیسا ہوا پیپر
حسن کو صحنِ میں قدم رکھتے ہی باجی نادیہ کہ حسن میں ڈوب چکا تھا حسن باجی کے قریب چارپائی پر بیٹھتے بولا
باجی اچھا ہوا ہے
نادیہ: چلو شکر۔ہے اب اگے کے پرچون کی بھی اچھے سے تیاری کرنا اول۔پوزیشن لینا
حسن یہ سن کر مسکرتے ہوۓ بولا باجی اول پوزیشن تو نا ممکن ہے بس پاس ہو جاؤ وہی کافی ہے
نادیہ حسن کی بات سن کر سلائی کرتے رکی اور بولی صرف پاس ہونے کا۔کیا۔فائدہ نالائک پوزیشن لو تب ہے
حسن یہ۔سن کر شراتی انداز میں بولا باجی آپ میری جگہ پرچے دے آ
0 تبصرے