عجیب رشتے (انسیسٹ) پارٹ 8

 حسن بھی مسکرا دیا اور بولا باجی اب بس کریں صحیح ہو گیا اب سو جاؤ گا نادیہ نے بھی حسن کا سر چھوڑا آئل کی بوتل اٹھائی اور بستر سے اٹھ کر بولی اب سو جاؤ میں بھی سوتی ہوں اور تیل کی بوتل رکھنے میز کی طرف چل پڑی حسن پھر حسرت بھری نگاہ سے باجی کی گانڈ کو ڈھونڈنے لگا مگر اس بار باجی کا لمبا ڈوبٹا اس کی گانڈ کی حفاظت کیسے سامنے تھا جس سے حسن کی آنکھیں باجی کی گانڈ اور مموں دونوں کے دیدار سے محروم رہ گئی اور اتنی دیر میں نادیہ کمرے کی لائٹ بند کر کے بستر پر آ لیٹی حسن پھر باجی کے جسم کو سوچنے لگا اور ان کے پیار میں ڈوبنے لگا مگر حسن ابھی اپنے ضمیر کی کچی گرفت میں تھا جس کی آواز پر کبھی کبھی وہ ان خیالوں کو نہ سوچنے کی کوشش بھی کرتا تھا 

وہیں نادیہ بستر پر لیٹی حسن کی عجیب باتوں کو سوچنے لگی کہ حسن آج ایسی باتیں کیوں کر رہا تھا حالانکہ وہ تو کبھی ایسی بات نہیں کرتا تھا مگر آج اس کا اندازہ الگ تھا مگر پھر نادیہ نے سوچا کہ شاید واقع سردرد کی وجہ سے وہ بولے جا رہا تھا اور یہ سوچ کر وہ بھی سو گئی 

اگلی صبح حسن کی انکھ کھلی تو سامنے ہمیشہ کہ جیسے اس کی باجی کھڑی اسے کندھے سے ہلاتی جگا رہی تھی مگر آج حسن کی نگاہ اور نظر مختلف تھے حسن کی نظروں میں باجی کا نورانی بہرا تھا جیسے دیکھ حسن کے اندر ایک پیار کی عجب سی کہر دوڑ گئی باجی نادیہ نے ہلکے پیلے رنگ کا شیل کا جوڑا پہن رکھا تھا جس کے اوپر ایک سلور رنگ کی بٹنوں واکی جرسی تھی جس میں باجی کے بھاری بھرکم ممے کھچے ہوۓ اپنا ابھار دکھا رہے تھے اس کہ اوپر سر کر کاکے رنگ کا ڈوبٹا باجی کی خوبصورتی اور معصومیت کی گواہی دے رہا تھا باجی حسن کو جگا کر کچھ چلاتی کمرے سے نکل گئی مگر حسن کا تو خیال کہیں اور تھا حسن اب پوری طرح باجی کے پیار میں ڈوب چکا تھا اور گناہ معاشرتی ممانعت اور غیر فطری عمل کے باوجود اب وہ اس پیار کو اپنا سب کچھ بنا بیٹھا تھا اور باقی تمام چیزوں سے انکاری تھا حسن اٹھا تیار کو کر سب کے ساتھ ناشتہ کرنے لگا حسن اب بھی بار بار چور نگاہ سے باجی نادیہ کے نورانی اور دل موہ لینے والے چہرے کا دیدار کر دہا تھا نادیہ کی نظر بھی حسن پر لڑی مگر اسے محسوس نہ ہوا کہ حسن کیا دیکھ رہا ہے حسن نے ناشتہ کیا اور سکول چلا گیا 

سکول سے چھٹی کے بعد معمول کے مطابق حسن ٹویشن پر گیا آج کا سارا دن حسن کا دل و دماغ باجی کے گرد ہی گھوم رہا تھا اور ہر گزرتا لمحہ حسن کو باجی کا اور دیوانا کرتا جا رہا تھا 

کاشف بھی حسن سے ملا اور اس کے بدلے رویہ اور سوچوں میں گم دیکھ کر حسن سے پوچھا کہ کیا ہوا وہ آج پریشان اور گم سم سا لگ رہا مگر حسن جس وجہ سے پریشان اور جس دنیا میں گم تھا اس کا ذکر ہو کسی سے نہیں کر سکتا تھا حسن نے کاشف کو کچھ نہ بتایا اور بس یہی کہہ دیا کہ کچھ نہیں ویسے ہی آج موڈ تھوڑا آف ہے کاشف حسن کی یہ بات سن کر بولا کہ کہیں عدنان کے ساتھ پھر تو کوئی مسلہ نہیں ہوا حسن کاشف کی بات سن کر چونکا اور سوچنے لگا کہ عدنان کہاں اب وہ جس پیار اور جس شخص کے دنیا میں گم ہے وہاں عدنان جیسوں کا پیار تو پھیکا پڑ جاۓ حسن اب کاشف کے سوالوں سے اکتا چکا تھا وہ بس اپنی باجی نادیہ کی سوچوں میں ہی گم رہنا چاہتا تھا سو تھوڑا کڑوے لہجہ میں بولا یار کاشف کوئی بات نہیں ہے چپ کر کے بیٹھو کاشف حسن کی بات سن کر خاموش ہو گیا 

ٹیوشن کی چھٹی ہوئی اور حسن گھر کی طرف چل دیا صبح سے شام ہونے کو تھی مگر حسن کا دل اور دماغ باجی نادیہ کے گرد ہی گھومتا رہا حسن جونہی گھر پہنچا تو صحن میں اس کے ابو اپنی بائیک کو کھولے صفائی کر رہے تھے حسن نے سلام کیا جس پر اس کے ابو نے جواب دیا اور بولے آگیا بیٹا حسن جی بولتے ڈرائنگ روم میں داخل ہوا جہاں امی بیٹھی پیاز وغیرہ چھیل رہی تھی اور ان کہ ساتھ نیچی چٹائی پر بیٹھی باجی نادیہ آٹا گوندھنے میں مشغول تھی حسن کمرے میں داخل ہوا سلام کیا جس کا جواب باجی اور امی دونو نے دیا پھر امی کے پاس کچھ دیر بیٹھا امی دعائیں اور پیار دینے لگی 

نادیہ بھی بھائی کو دیکھ کر مسکرائی اور پھر آٹا گوندھنے میں مگن ہو گئی حسن جو سارا دن باجی نادیہ کے بارے سوچتا رہا تھا اب ان کو ایسی ترسی اور بوکھی نگاہوں سے دیکھے جا رہا تھا نادیہ باجی پر ہلکے پیلے رنگ کا سوٹ کافی جچ رہا تھا مانو جیسے کوئی پھول ہو اس کے نیچے جرسی میں قید ان کے دودھ کے مٹکے جو یوں لگ رہا تھا جیسے باہر نکلنے کو بیتاب ہیں اور جرسی کے بٹن اپنی پوری آب وتاب سے ان دو گنبد کے جیسے گول مڈول مموں کو باہر نکلے سے روکے ہوۓ تھے نادیہ کے سر پہ ڈوبٹا کافی جچتا تھا ایسے لگتا تھا مانو کوئی پاکیزہ چیز کو ڈھانپ رکھا ہو سر پر ڈوبٹا اور چہرےپر نور کی بارش حسن بس نادیہ کو گھورے ہی جا رہا تھا اسے اب اپنے اردگرد کی خبر تک نہ تھی نادیہ اس بات سے انجان اپنے کام میں مشغول تھی کہ اتنے میں امی نے حسن کو دیکھ لیا اور بولی کیا ہوا بیٹا کن سوچوں میں گم ہو سب خیر تو ہے جونہی امی بولی تبھی نادیہ نے بھی اوپر دیکھا تو حسن کی آنکھوں کو پکڑ لیا جو حسن نے جلدی سے چرائی اور امی کی طرف دیکھتے بولا نہیں امی کوئی بات نہیں ہے یہ سن کر امی بولی اچھا بیٹا جاؤ یونیفارم بدل لو جس پر حسن۔اٹھ۔کر کمرے میں چلا آیا 

کمرے میں آ کر حسن نے کپڑے اتارے اور وہیں بیڈ پر بیٹھ گیا حسن سوچ رہا تھا کہ کہیں باجی نے اسے دیکھ تو نہیں لیا اور پھر دل ہی دل میں خود کو تسلیاں دینے لگا کہ نہیں باجی کو شک نہیں ہوا ہو گا

وہیں دوسری طرف نادیہ ہو ہلکا سا شک ہوا کہ۔حسن اس کے جسم کو دیکھ رہا تھا اور پھر جب اس نے پکڑا تو وہ ڈر سا بھی گیا تھا وہیں رات کو۔وہ۔باتیں بھی بہت عجیب سی کر رہا تھا وہیں نادیہ یہ بھی سوچتی کہ شاید وہ غلط سوچ رہی حسن ایسا نہیں کر۔رہا ہو گا یہ اس کا واہم ہے اور یہ واہم اسے اس لیے ہو رہا کہ حسن نے اس تعریف کی تھی اور شاید اب اس کا دل اسی وہم میں مبتلا غلط بھائی پر شک کر۔رہا ہے اور دل کو سمجھا کر نادیہ اٹھی اور کھانا۔پکانے چلی گئی 

رات کو بھی دونو کے درمیان خاصی بات نا ہوئی اور دونو سو گئے اور اگلی صبح بھی معمول کے مطابق ہی رہی 

دن گزرنے لگے یونہی اور حسن نادیہ باجی کا پیار اپنی دل میں چھپاۓ گھومتا رہا اور اب حسن نادیہ کو گھورتا بھی نہیں تھا وہ ںہت محتاط تھا کہ باجی کو اس کی بھنک بھی نہ پڑے وہی نادیہ ان سب سے انجان اپنی دنیا میں گم تھی اس دوران حسن کا عدنان کے ساتھ سیکس ہوتا رہا اور بھی ایک دو لڑکے حسن چودھ چکا تھا مگر اب اس کا دل ان سب چیزوں سے اکتا چکا تھا اور اب ہر گزرتے دن۔کے ساتھ وہ باجی نادیہ۔کے پیار میں پاگل ہوتا جا رہا تھا اور سب سے زیادہ پاگل اسے یہ بات کرتی تھی کہ وہ اپنے پیار کو کبھی حاصل نہیں کر پاۓ گا نا ہی اظہار کر پاۓ گا کیونکہ وہ جس سے پیار کر بیٹھا تھا وہ کوئی اور نہیں اس کی سگی بہن تھی 

 وہیں نادیہ اپنے بھائی کہ دل اور خیالوں سے انجان صرف حسن کو بھائی ہونے کے ناطے پیار اور محبت سے پیش اتی تھی 

ایک دن حسن سکول سے گھر کو لوٹا گھر پر کوئی نظر نہیں آ رہا تھا حسن ڈراینگ روم میں بھی گیا مگر وہاں بھی امی نہیں تھی حسن سوچنے لگاکہ سب کہاں گئے اور اتنے میں وہ اپنے کمرے کی طرف چل پڑا حسن جونہی کمرے میں داخل ہوا سامنے کا منظر حسن کی آنکھوں کی بینائی لے اڑا ایسا منظر جس کی حسن نے کبھی امید بھی نہ کی تھی کمرے میں باجی نادیہ کپڑے چینج کر رہی تھی جب حسن داخل ہوا تو نادیہ شلوار پہن چکی تھی اور اپنی قمیص پہن رہی تھی نادیہ کی قمیض ابھی اٹھائی ہی تھی کہ حسن کمرے میں داخل ہو گیا نادیہ باجی نے کالے رنگ کا بریزیر پہنا ہوا تھا ان کے 36 کے ممے کو وہ بریزیر مشکل سے سمبھال پا رھا تھا نیچے ان کا سڈول پیٹ اور خوبصورت دودھ جیسا شفاف سفید جسم حسن کے تو دیکھ کر ہوش اڑھ گئے اور ساتھ میں نادیہ کہ بھی نادیہ یونہی حسن کو دیکھا تو جلدی سے اپنا سینا اور جسم دوسری سائیڈ کر کے ڈھانپنے کی ناکام کوشش کی مگر ناکام رہی الٹا اب حسن کو گانڈ کے نظارے بھی ملنے لگے تھے باجی کی سڈول سیدھی کمر جیسی کسی تیر یا ہرنی کی گردن ہو اس کے نیچے گانڈ کی شروعات جو گول مڈول اور کافی باہر کو نکلی ہوئی تھی حسن کو یہ نظارے پاگل کر رہے تھے تبھی نادیہ دوسری سائیڈ منہ کر کے چلائی باہر جاؤ اس چند سیکنڈ میں حسن نے وہ کچھ دیکھ لیا جو شاید وہ صدیوں بعد بھی نہیں بھول پاۓ گا حسن اب ڈر بھی گیا تھا اور اس جنت جیسے نظارے کو چھوڑ کر واپس پلٹا حسن صحن تک ہی پہنچا تھا کہ پیچھے سے نادیہ بھی اپنا ڈوبٹا اور بال سیدھے کرتے نکلی اور قدرے غصے سے حسن پر چلا کر بولی بے وقوف انسان دروازہ کھٹکھٹا کے اندر اتے ہیں جس پر حسن پشیماں اور شرمندگی کے مارے کچھ نہ بولا اور باہر جانے لگا حسن جو نہی دروازے پر پہنچا تھا کہ آگے سے امی بھی گھر داخل۔ہوئی حسن امی کو دیکھ کر حیران ہوا اور بولا امی اپ کہاں تھی 

امی: بیٹا میں ساتھ محلے میں حاجی مشتاق کے گھر گئی تھی اللہ بچاۓ بیچارا کافی بیمار پڑا تھا کئی دن سے میں نے سوچا ان کے گھر تماداری کر آؤں 

تم بیٹا آج ٹویشن نہیں گئے

حسن یہ سن کر بولا نہیں امی پرسوں سوموار سے پیپر شروع ہو رہے اس لیے اب ٹویشن ختم ہو گئی سو گھر آ گیا 

اچھا بیٹا پھر اب کہاں جا رہے اور یونیفارم بھی نہیں بدلا حسن بولا بس امی اتا ہوں ابھی اور یہ کہہ کر باہر نکل گیا 

نادیہ کچن میں کھڑی یہ سب سن رہی تھی اور کافی شرمندہ تھی کہ اس کے بھائی نے اسے نیم برہنہ دیکھ لیا تھا نادیہ ویسے تو شریف تھی کیونکہ گھر کا ماحول ہی ایسا تھا اور جہاں تک اس کے جزبات اور خیالات تھے جن میں وہ کئی مردوں سے مزے لیتی وہ بھی ایک حد تک اس کے تھے مگر اس کو اس بات پر بہت شرمندگی اور گناہ کا محسوس ہو رہا تھا کہ اس کے بھائی نے اسے ننگا دیکھا کیونکہ۔ان۔کا۔گھرانہ مزہبی قسم کا تھا جہاں بھائی یا باپ کے سامنے سر سے ڈوبٹا اتارنا بےحیائی اور گناہ سمجھا جاتا تھا وہیں نادیہ کا بھائی اس کو ننگا دیکھ چکا تھا مگر اس سب کی پریشانی اور پشیمانی۔جب تھوڑی کم ہوئی تو نادیہ کو افسوس بھی ہوا کہ حسن کی بھی غلطی نہیں تھی مجھے کپڑے واشروم میں جا کر بدلنے چاہیے تھے تو شاید یہ سب نہ ہوتا حسن کا تو کمرہ تھا نا پہلے کبھی وہ کھٹکھٹا کے اتا ہے جو اب آتا اب نادیہ حسن پر چلانے کی وجہ سے شرمندہ تھی اور ننگی کونے کی وجہ سے بھی 

وہیں حسن گھر سے نکل کر تھوڑا دور کھیتوں کے ساتھ بنی پانی کی پلی پر جا بیٹھا ایک طرف حسن کے تن بدن میں آگ لگی تھی باجی کا ایسا حسن اور قاتلانہ جسم ننگا دیکھ کر وہیں وہ اس بات سے پریشان بھی تھا کہ باجی کو اس بات ڈے بہت برا محسوس ہوا ہو گا اور وہ اس سے ناراض بھی ہو گی وہ اب دوبارا باجی سے نظریں نہیں ملا۔پاۓ گا 

مگر حسن کے دل و دماغ میں بار بار وہ باجی کا دودھ جیسا سفید جسم گول مڈول ممے اور باہر کو۔نکلی مست ملائم گانڈ آ رہی تھی جس حسن کے لیے باجی کی تڑپ اور بڑھا رہی تھی حسن کو باجی کے اس کالے بریزیر سے جلتا جا رہا تھا جو ان مموں کو پکڑے ہوۓ تھا وہ سوچ رہا تھا کہ کاش وہ بریزیر ہوتا جو اپنی باجی کے مموں سے چپکے رہتا اور ان کو پیار کرتا یہاں تو چپکنا دور وہ ٹچ بھی نہیں کر سکتا تھا حسن بہت دیر باہر یونہی بیٹھا رہا نادیہ کی پریشانی اب بڑھنے لگی کہ اس کی۔غلطی۔پر اس نے حسن کو ڈانٹ دیا۔اور شاید اب حسن خود پشیمان ہو گا ہو کوئی جان بوجھ کر تھوڑی اندر آیا تھا وہیں کافی ٹائم ہو جانے کی وجہ سے امی بھی نادیہ۔سے پوچھنے لگی کہ حسن کہاں چلا گیا تھا ابھی تک آیا نہیں اور پریشان بھی لگ رہا تھا نا کپڑے تبدیل کیے تھے نادیہ نے کہا امی کہہ رہا تھا کسی دوست کے گھر تک جا رہا ابھی آ جاۓ گا اور پھر دل ہی دل میں دعا کرنے لگی کہ آ جاۓ مگر حسن کو وہاں عدنان آ ملا جو اسے دیکھ کر اس کے ساتھ باتوں میں بیٹھ گیا حسن بھی عدنان سے باتیں کرتا رہا اور اس کا گھر جانے کا دل نہیں کر رہا تھا ایک طرف تو وہ خوش تھا کہ اس نے اس سرپا حسن کو دیکھ لیا تھا جس کو آج تک کسی نے نہیں دیکھا اور اس کے پیار اور محبت کو مانو یہ نظارہ گفٹ ملا ہو مگر دوسری طرف وہ یہ بھی جانتا تھا کہ نادیہ باجی کہ دل میں تو ایسا کچھ بھی نہیں جیسا وہ سوچتا ہے وہ تو پریشان اور حسن پر غصہ ہو گی کیونکہ جو اس نے کیا وہ ایک بہن کے لیے قبول کر پانا سور سوچنے تک بھی شرما دینے والے تھا خاص کر اس گھرمیں جہاں ںہت سختی اور مذہبی ہو حسن عدنان سے باتیں کرتا اس کے گھر چلا گیا اج دونو کے ںیچ سیکس تو نا ہوا مگر باتیں اور تھوڑا بہت رومانس کرتے رہے اسی دوران عدنان نے بھی نوٹ کیا کہ حسن آج کچھ پریشان اور الجھا سے ہے اور اخر کار اس نے بھی دریافت کر لیا۔کہ حسن کیا ہوا آج پریشان ہو جس پر حسن نے کہا کہ نہیں یار پریشان نہیں ہوں عدنان بولا یار مجھے پتا ہے کچھ تو پریشانی ہے پہلے تم اتنے چپ نہیں ہوتے آج کھوۓ سے ہو دوست سمجھتے ہو تو بتاؤ کیا بات ہے حسن کچھ نہیں کہہ کر ٹالتا رہا اور عدنان کے بے انتہا اصرار پر بھی اسے کچھ نہ بتاتا اور آخر بتاتا بھی کیا کہ وہ اپنی ہی سگی باجی پر عاشق ہو چکا ہے اور اج اسے ادھا ننگا بھی دیکھ چکا ہے 

حسن کو عدنان کے پاس آۓ کافی دیر ہو چکی تھی شام کے بعد کا ٹائم ہو چکا تھا اور حسن گھر نہیں گیا وہیں حسن کی ماں کی پریشانی بھی بڑھنے لگی کہ آخر بنا یونیفارم بدلے وہ کہاں چلا گیا اور دوپہر کا شام ہو گئی گھر نہیں لوٹا وہیں نادیہ کی پریشانی سے جان نکل رہی تھی کہ کہیں حسن اس سب بات کا برا تو نہیں منا گیا اور کچھ غلط۔۔۔۔۔یہ سوچ کر اس کی آنکھوں میں آنسوں آگیے جلدی سے موبائل اٹھایا اور حسن کو کال کی حسن عدنان کی باہوں میں لیٹا پڑا تھا جونہی گھر کا نمبر اپنے موبائل پر کال دیکھی تو اٹھ بیٹھا اور کال اٹنڈ نہیں کی عدنان نے جب دیکھا تو سمجھا کہ شاید حسن گھر سے لڑ کر آیا ہے اسی لیے پریشان ہے اور اب کال بھی نہیں اٹھا رہا نادیہ کی پریشانی تھی کہ اس کی جان نکل رہی تھی کہ آخر حسن گیا کہاں اور اب تو کال بھی نہیں اٹھا رہا وہیں حسن کہ ابو بھی گھر آ چکے تھے اور وہ بھی ایک دو کال حسن کو کر چکے تھے 

عدنان نے حسن کو کہا کہ اب گھر جاؤ اور اگر گھر والوں سے لڑ کر آۓ ہو تو خیر ہے بھول جاؤ ماں باپ کے ساتھ ہوتا رہتا ایسے برا نہیں مناتے عدنان حسن کو سمجھا بجھا کر اسے خود گھر تک چھوڑ گیا 

حسن جونہی گھر جے دروازے سے اندر داخل ہوا اس کی ماں تو بولنا شروع ہو گئی کہاں تھے بنا بتاۓ چلے گئے یونیفارم بھی تبدیل نہیں کیا گھر بتا کر تو جایا کرو نہ کال اٹھا رہے تھے۔۔۔۔۔

حسن کی ماں چپ ہوئی ہی تھی کہ حسن کہ ابو بھی بول پڑے کہاں تھے بیٹا نا کال اٹھا رہے تھے حسن نے جھوٹ بول۔دیا۔کہ ایک دوست مل گیا تھا پرانا اس کے ساتھ تھا بائیک پر موبائل کی کال کا پتا نہیں چلا اور یہ بول کر کمرے میں چلا گیا پیچھے حسن کی مان بولتی رہی کہ بیٹا جہاں بھی جایا کرو بتا کر تو جایا کرو۔۔۔۔۔

وہیں نادیہ جس کی جان اٹکی پڑی تھی سور اگر حسن کچھ دیر اور لیٹ ہوتا تو اس نے ٹینشن کے مارے گر پڑنا تھا نادیہ کی جان میں کچھ جان آئی اور کچن سے نکل۔کر امی کو تھوڑے سخت لہجے سے بولی اچھا امی بس بھی کریں چلا گیا تو کیا ہوا دوست مل گیا ہو گا اب اتنی باتیں نا سنائیں حسن کمرے میں بستر پر جا کر لیٹ گیا حسن اور پریشان تھا کہ وہ کس طرح نادیہ کا سامنا کرے گا تھوڑی ہی دیر گزری کے امی کی آوازیں آنے لگی حسن بیٹا آؤ کھانا کھا لو حسن چپ چاپ بستر میں گھسا رہا تبھی نادیہ کمرے میں آئی اور حسن کے سرھانے کھڑے ہو کر بولی حسن کھانا۔لگ گیا۔ہے کھا لو نادیہ کی بات سنتے ہی حسن کا۔جیسے مانو دل رک سا گیا۔ہو حسن منہ۔پر۔رضائی ڈالے پڑا تھا اور بولا میں دوست کے ساتھ کھا آیا آپ لوگ کھا لو نادیہ جانتی تھی کہ وہ جھوٹ بول رہا۔مگر کچھ کہنے لگی اور پھر چلی گئی 

رات کو۔جب سب سو گئے تو نادیہ بھی کمرے میں آئی حسن ویسے ہی رضائی منہ۔پر ڈالے پڑا تھا نادیہ کمرے میں داخل ہو کر کنڈی لگائی اور حسن کے بستر کے قریب آکر حسن کو آواز دی حسن جاگ رہا تھا مگر وہ نادیہ کا سامنا نہیں کر سکتا تھا

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے