عجیب رشتے (انسیسٹ) 3

 حسن کاشف کی یہ بات سن کرحسن حیران ہوا مگر پھر وہ جانتا تھا کہ کاشف تو ہے بھی گانڈو سو اسے کیا فرق پڑنا 

حسن: یار آج صبح وہ مجھے ملا اور اس نے مجھے کہا کہ مجھے ملنے آنا

کاشف: ہلکی ہنسی۔ہنستے ہوۓ پھر گانڈ پر تیل لگا کہ جانا وہ ویسے بھی کل کہہ رہا تھا کہ مجھے اصل تو۔حسن پیارا لگتا ہے 

حسن: یار مذاق نا کرو مجھے بہت ڈر لگ رہا 

کاشف: دیکھ یار ہم لڑکے ہیں مطلب مزہ لینے سے ہے جیسے کل گانڈ مار کے تمھے مزہ آیا ویسے ہی کچھ دن تک مروانے میں بھی مزہ آۓ گا اور وہ کونسا تم سے شادی کر کے کگا لڑکیوں کے بھی مزہ لینے اور لڑکوں کے بھی 

حسن کو کاشف کی یہ بات کافی اچھی نہ لگی مگر نہ۔جانے کیوں اسے کچھ تسلی سی ملی 

سکول کی جب چھٹی ہوئی تو حسن ٹیوشن پر جانے کی بجاۓ عدنان کے گھر کی طرف چل پڑا وہ بہت ڈرا ہوا تھا اور اس کا دل بھی نہیں کر رہا تھا مگر وہ مجبور تھا وہ جانتا تھا کہ وہ نا گیا تو عدنان اس کی وڈیو اس کے ابو کو دیکھا دے گا 

عدنان کا گھر حسن کے گھر کے قریب ہی تھا 5٫6 گھر چھوڑ کر عدنان کا گھر تھا حسن دروازے پر پہنچ کر کھٹکھٹانے لگا تبھی اندر سے عدنان نے دروازہ کھولا اور حسن کو دیکھ کر مسکراتے اسے اندر آنے کا کہا حسن اندر داخل ہوا اور عدنان نے گھر کا دروازہ بند کر دیا اور آگے کمرے جی طرف چلتے حسن کو پیچھے آنے کا کہا 

عدنان کا گھر بھی کافی پیارا اور چھوٹا سا تھا اوپر 3 کمرے اور بیچے 4 کمرے تھے باتھروم اور کچن جو کہ اب تو استعمال کم ہی ہوتا تھا حسن کو عدنان ایک کمرے میں لے گیا اور اسے وہاں بیٹھنے کا بول کر باہر چلا گیا 

حسن بہت ڈرا اور سہما ہوا تھا اور اپنی۔موت کے انتظار میں تھا تبھی عدنان کمرے میں آیا اس کے ہاتھ میں چاۓ سموسے وغیرہ تھے یہ دیکھ کر حسن حیران ہوا کیونکہ حسن تو سوچ رہا تھا کہ وہ تیل لے کر آۓ گا اور اسے چودھ ڈالے گا مگر یہاں تو مہمان نوازی ہو رہی ہے

عدنان بہت ہی پیار اور مخلص طریقے سے حسن کو پیش آ رہا تھا اور اسے چاۓ اور سموسے رکھ کر کھانے کو کھا حسن بھی بنا۔منع کیسے چاۓ اور سموسے کھانے لگا تبھی عدنان بولا

دیکھو حسن تم سب جانتے ہو کہ میں نے تمھیں یہاں کیوں بلوایا اور جو کچھ کل ہوا وہ بھی تم جانتے ہو مجھے تم پہلے دن سے بہت پیارے لگتے تھے مگر تم نے کبھی میری جانب دیھان نہیں دیا حسن غور سے عدنان کی باتیں سن رہا تھا 

عدنان: میں تم سے کوئی زبردستی نہیں کروں گا اور اگر تم کہو گے تو میں تمھاری وڈیو بھی ڈیلیٹ کر دو گا اور کسی کو بتاؤں گا بھی نہیں مگر میں چاہتا ہوں کہ تم میرے اچھے دوست بن جاؤ اور دل سے میرے ساتھ رہو اور میں یہ بھی وعدہ کرتا ہوں کہ تمھیں میری وجہ سے کبھی۔کوئی تکلیف نہیں ہو گی 

حسن یہ سب باتیں سن کر کافی حیران تھا کیونکہ اس نے بالکل بھی ایسا نہیں سوچا تھا کہ عدنان اس کو اس طرح پیش آۓ گا اب وہ کچھ سبھل گیا اور اس کا ڈر بھی کم ہو گیا 

عدنان: بولو حسن چپ ہو 

حسن بولنا چاہتا تھا مگر بول نہیں پا رہا تھا تبھی عدنان بولا کوئی بات نہیں ےم سوچ لو کچھ دن میں انتظار کر لوں گا پھر تمھارا جو جواب ہو مجھے بتا دینا 

حسن پھر بھی چپ رہا اور پھر چاۓ پی لی جب تو عدنان نے حسن سے کہا کہ اب تم چلے جاؤ 

حسن عدنان کے گھر سے نکل کر اپنے گھر کے طرف چل پڑا حسن حد سے زیادہ حیران تھا کہ عدنان نے اسے اتنا اچھا ٹریٹ کیا اسے کہا بھی کچھ نہیں مگر وہ تو اسے بہت برا اور پتا نہیں کیا۔کیا سوچ رہا تھا یہ سب سوچتے حسن گھر میں داخل ہوا تو سامنے اس کی ماں چارپائی پر بیٹھی تھی اور نادیہ باجی گھر کے کام کر رہی تھی دونو نے جب حسن جو دیکھا تو بولی حسن کیا بات ہے آج جلدی واپس آ گئے یہ سن کر حسن بولا جی امی ٹویشن والے ماسٹر آج تھے نہیں اسی لیے جلدی واپس آ گیا اور یہ بول کر حسن کمرے میں جا کر کپڑے چینج کرنے لگا مگر حسن بار بار عدنان کے بارے سوچ رہا تھا اور عدنان کا ایسا خوبصورت انداز اب حسن کو اپنا گرویدہ کر گیا تھا اور وہیں اب حسن کی ٹینشن بھی کم ہو گئی تھی 

حسن کپڑے چینج کر۔کے باہر امی کے ساتھ دھوپ میں جا بیٹھا جہاں نادیہ بھی صحن میں بیٹھی برتن دھو رہی تھی 

نادیہ: حسن کھانا لے آؤں تمھارے لیے 

حسن: نہیں باجی مجھے بھوک نہیں سکول میں بریک ٹائم سموسے کھا لیے تھے ابھی تو دل نہیں کر رہا رات کو اب کھاؤں گا 

نادیہ: یہ روز کیوں سموسے کھاتے ہو پیٹ خراب ہو گا اسی لیے کھانا بھی نہیں کھاتے کمزور ہو کر بیمار پڑو گے 

باجی کی بات سن کر حسن مسکراتے بولا اچھا میری ماں اب نہیں کھاؤں گا اور اپنی امی کو مخاطب کر کے بولا امی مجھے تو لگتا آپ میری ماں نہیں بلکے یہ میری ماں ہے جس کے جواب میں حسن کی امی نے مسکراتے ہوۓ جواب دیا تمھارے پیدا ہونے کہ بعد میں کافی بیمار تھی تو تمھاری بڑی بہن نے ہی تمھارا خیال رکھا اور ویسے بھی بڑی بہن ماں کے برابر ہوتی ہے اور یہ بول کر ہنستے ہوۓ حسن کے سر پر پیار سے تھپڑ مارا 

نادیہ: سن لو بے شرم تمھیں تو میرا شکر کزرا ہونا چاہیے احسان فراموش 

حسن: ہنستے ہوۓ ہاں ہاں امی جان آپ کا بہت بہت شکریہ 

یہ سن کر سب ہنسے لگے اور یونہی باتیں ہوتی رہی۔۔۔


رات کو حسن بستر پر لیٹا پرا عدنان کے بارے سوچ رہا تھا کہ باجی نادیہ بھی سب کام نپٹا کر ونے کے لیے کمرے میں داخل ہوئی دروازے کی کنڈی لگائی اور لائٹ آف کر کے اپنے بستر میں گھس گئی حسن کو اب باجی نادیہ سے سوری کرنا تھا کیونکہ پچھلے دو دن سے وہ ان سے ساتھ کافی بد تمیزی سے پیش آ چکا تھا باجی نادیہ نے حسن کی جانب دیکھا تو ںاہر سے آتی ہلکی روشنی میں حسن کا چہرا صاف نظر آ رہا تھا جو نادیہ کی طرف نظریں کیسے اسے دیکھ رہا تھا باجی نادیہ بولی حسن کیا ہوا ایسے کیوں دیکھ رہے 

حسن: کچھ نہیں باجی مجھے آپ سے سوری کرنا تھا 

نادیہ: سوری کس لیے بھلا 

حسن: باجی اس دن میں نے آپ سے تھوڑا بدتمیزی کر دی تو مجھے بہت افسوس ہے حسن کی کہ بات سن کر نادیہ ہنستے ہوۓ بوکی کوئی بات نہیں پاگل اور ویسے بھی اب تو ہم دوست ہیں سو دوستی میں یہ چلتا رہتا ہے 

حسن: تو آپ نے مجھے معاف کر دیا باجی

نادیہ: ہاں میرے لاڈلے معاف کیا 

حسن: میں تب مانو گا کہ آپ نے مجھے معاف کر دیا جب آپ کل کے جیسے میرے بالوں کو سہلائیں گی 

نادیہ یہ سن کر ہنستے ہوۓ بولی ہاہاہا۔۔۔ اچھا میرے لاڈلے بھائی جو ہو اب یہ۔حکم بھی ماننا پڑے گا اور یہ بولتے اپنے بستر سے نکل کر حسن کے سرھانے جا بیٹھیں اور حسن کا سر اپنی گودھ میں کے اس کے بالوں میں انگلیاں پھیر کر اس سے باتیں کرنے لگی 

نادیہ: ویسی آج میرا بھائی بڑا خوش ہے 

حسن: جی باجی کیونکہ آپ جیسا دوست جو مل گیا مجھے 

نادیہ: ہاہاہا۔۔۔۔ ہاں ہاں مکھن لگا لو

حسن: نہیں باجی سچی کہہ رہا 

نادیہ: پھر ایسا نہ ہو دوستی کبھی توڑ جاؤ 

حسن: نہیں باجی ہماری دوستی کبھی نہیں ٹوٹ سکتی ہمارا رشتہ ہی ایسا ہے 

نادیہ: یہ سن کر حسن کے ماتھے پر چومتے بولتی ہے انشاء اللہ کبھی نہیھ ٹوٹے گی 

کچھ دیر یونہی باتیں ہوتی ہیں اور پھر حسن کہتا ہے کہ باجی آپ اب سو جاؤ میں بھی سوتا ہوں اور نادیہ پھر آخری بار حسن کہ ماتھے پر چومتی ہے اور جا کر اپنے بستر میں سو جاتی ہے وہیں حسن بھی بستر میں آنکھیں بند کیسے پھر سے سوچنے لگتا ہے 

حسن کی عدنان واکی پریشان اب کم ہو چکی تھی مگر اسے عدنان کو جواب بھی دینا تھا کہ وہ اس کا دوست بنے گا یا نہیں حسن سوچ رہا تھا کہ وہ عدنان کو منع کر دے مگر عدنان کا اچھا رویہ اسے اس طرح کا جواب دینے سے روک رہا تھا وہیں حسن یہ بھی سوچ رہا تھا کہ کہیں عدنان اسے آزما نا رہا ہو انہیں سوچوں میں الجھا حسن کو کوئی راستہ کوئی جواب نہیں مل پا رہا تھا 

تبھی حسن نے سوچا کہ اس دن تو ویسے بھی وہ کاشف سے گانڈ مروانے والا تھا اگر عدنان نا آتا تو اور کاشف اسے بالکل پسند بھی نہیں تھا بس اس کی گانڈ کے بدلے وہ اسے گانڈ دینے والا تھا اور وہیں دوسری سائیڈ عدنان ہے جو اتنا بڑا راز لیے بیٹھا ہے وہ بھی وڈیو۔کہ ساتھ مگر پھر بھی اس نے اتنا اچھا برتاؤ کیا میرے ساتھ وہیں یہ بھی ڈر ہے کہ کہیں عدنان حسن کو آزما نہ رہا ہو اور حسن کا انکار کوئی تباہی برپا کر دے حسن نے آخر کار آیک فیصلہ لے لیا کہ وہ عدنان سے دوستی کر لے گا اور اس سے ایک بار گانڈ مروا لے گا بس اب ایک پرابلم تھی اور وہ۔یہ۔کہ عدنان اس سے عمر میں کافی بڑا تھا عدنان ایک خوبصورت اور بھرے جسم کا نوجوان تھا جسے پہلوان کہنا غلط نہ ہو گا کیا میں اسے برداشت کر پاؤں گا یہ سوچ حسن کو ڈرا بھی رہی تھی یہ سب سوچتے حسن سو گیا 

صبح معمول کے جیسے وہ اٹھا اور ناشتہ کر کے سکول کر نکل گیا راستے میں عدنان پھر اس کے انتظار میں تھا حسن کو دیکھ کر اس نے حسن سے بولا میں تمھارے ہی انتظار میں تھا تو کیا سوچا ہے تم نے حسن کہ منہ۔سے اچانک نکل گیا۔کہ ٹھیک ہے میں راضی ہوں جسے سن کر عدنان کے منہ پر ایک۔عجیب سی چمک آ گئی اور وہ بولا پھر آج تم سے اپنی دوستی پکی ہونے کے ناطے کچھ مانگو 

حسن یہ سن کر سوچنے لگا کہ شاید گانڈ ہی مانگے گا اور اب حسن ایک بار دوستی کر چکا تھا تو اب وہ بھی راضی تھا کہ دیکھا جاۓ گا اور بولا جی مانگو

تبھی عدنان بولا کہ آج سکول نا جاؤ اور دونو شہر جاتے ہیں مجھے کچھ کام بھی ہے اور پھر ساتھ میں مزے بھی کریں گے 

حسن جانتا تھا کہ عدنان کے پاس اپنی کار ہے اور اس کا بھی دل کرنے لگا تبھی عدنان بولا پلیز منع نا کرنا کسی کو پتا بھی نہیں چلے گا مزہ آۓ گا تبھی حسن مان گیا اور دونو عدنان گے گھر چلے گئے عدنان نے حسن کو کمرے میں بیٹھایا اور بولو کہ تم بیٹھو میں نہا کے آتا ہو عدنان کچھ دیر بعد تیار ہو کر آ گیا اور دونوں گاڑی میں بیٹھ کر شہر کی طرف چل پڑے راستے میں حسن بولا

تم نے جو ویڈیو بنائی تھی اب وہ ڈیلیٹ کر دو 

عدنان یہ سن کر حسن کی طرف دیکھنے لگا اور پھر مسکرا کر موبائل نکال کر حسن کو دے دیا اور بولا خود ڈیلیٹ کر دو حسن کو اس بات کی امید تو نہ تھی مگر وہ خوش تھا کہ وڈیو ڈیلیٹ ہو گئی تو اس کی آدھی سے زیادہ پریشانی کم ہو جاۓ گی حسن نے موبائل لیا تو اس پہ پاسورڈ تھا 

حسن: پاسورڈ کیا ہے 

عدنان: 462200 اور اپنا نمبر بھی سیو کر دینا جان کے نیم سے ہاہاہاہا۔۔۔۔

حسن نے پاسورڈ لگا کر موبائل کھولا اور پھر گیلری میں گیا تو حسن دیکھ کر حیران ہو گیا عدنان کے موبائل کی گیلری لڑکوں کی سیکس وڈیو اور تصاویر سے بھری ہوئی تھی حسن اپنی وڈیو ڈھونڈنے لگا اور آخر کار اسے مل گئی اور حسن نے ڈیلیٹ کر دی حسن کافی حیران بھی تھا کہ جس مقصد کہ لیے عدنان نے مجھ سے دوستی کی یعنی گانڈ مارنے کے لیے وہ ماری نہیں اور پھر بھی مجھے وڈیو ڈیلیٹ کرنے دی آخر ماجرا کیا ہے 

حسن: تم سے ایک بات پوچھو سچ سچ بتاؤ گے

عدنان: پوچھو میری جان تم سے اب چھوٹ نہیں بول سکتا

حسن: تم نے جو کاشف کے ساتھ کیا تھا وہ میری ساتھ کیا نہیں پھر بھی مجھے وڈیو ڈیلیٹ کیوں کرنی دی تم کو یہ نہیں لگتا کہ میں مکر جاؤں گا 

حسن کی یہ بات سن کر عدنان ہنستے بولا دیکھو میری جان اگر مجھے صرف گانڈ مارنے کا ہی شوق ہوتا نا تو میرے پاس بہت لڑکے ہیں مجھے ایک دوست چاہیے تھا جو صرف میرا دوست ہو اور کسی کا نا ہو اور تم وہی ہو کیونکہ تمھیں لڑکوں کا شوق نہیں اور مجھے پتا ہے اب تم کسی اور کہ ساتھ یہ سب نہیں کرو گے سو اس لیے میں چاہتا ہوں کہ ہمارے اس رشتے کی شروعات اعتبار سے ہو 

حسن کو عدنان کی یہ ںات کچھ خاص سمجھ تو نہیں آئی بس وہ یہی سمجھا کہ عدنان کو ایک دوست بھی چاہیے جو اس سے باتیں کرے اس کہ ساتھ گھومے پھرے 

حسن: تم دوسری شادی کیوں نہیں کر لیتے امیر بھی ہو گھر سب کچھ ہے پھر کیوں ان کاموں میں پڑے ہو

عدنان: تھوڑا سنجیدگی سے بولا دیکھوں حسن یہ دل نا کسی کا غلام نہیں ہوتا یہ اپنی من مانی کرتا ہے مجھے بچپن سے ہی لڑکوں کا شوق رہا تھا میں نے کبھی کسی لڑکی میں انٹرسست لیا بھی نہیں نا مجھے مزہ آتا ہے مگر پھر بھی میرے ماں باپ نے زبردستی میری شادی کروا دی تھی میں اسے خوش نہیں رکھ پایا تو رشتہ ختم کر دیا اب میں رہ کسی لڑکی کہ چکر میں نہیں پڑنا چاہتا اس کی مثال تم ایسے لو جیسے تمھیں لڑکوں کا شوق نہیں مگر تمھیں کسی لڑکے کے ساتھ ساری زندگی گزارنی پڑے تو کیا گزار لو گے 

حسن کو عدنان کی یہ باتیں اب سمجھ آ رہی تھی اور اب حسن کی نظروں میں عدنان کی ویلیو اور بڑھ گئی 

حسن: مگر عورت سے ہی گھر بنتا ہے جیسے کھانا پکانا کپڑے دھونے گھر کی صفائی وغیرہ

عدنان: ہاں تمھاری بات درست ہے مگر ان سب کاموں کے لیے میں نے ایک کام والی کو رکھا ہوا ہے میرے کام ہو جاتے اب اگر شادی کر لی تو بیوی اور بھی بہت کچھ مانگیں گی جو میں اسے دل سے نہیں دے پاؤں گا اور وہ بھی میری لونڈہ بازی کی وجہ سے بھاگ جاۓ گی 

حسن عدنان کے جواب سن کر چپ ہو گیا تبھی وہ شہر میں ایک نیو بننے والی بلڈنگ پر جا پہنچے عدنان نے حسن کو کہا کہ تم گاڑی میں بیٹھو میرا کچھ کام ہے کر کے آتا ہے اور چلا گیا 

حسن گاڑی میں بیٹھا سوچ رہا تھا کہ کیا وہ عدنان سے دوستی کر کے صحیح کر رہا یا غلط وہیں اس کا دماغ اسے صحیح کہہ رہا تھا اور کبھی غلط اتنے میں عدنان واپس آ تا ہے اور وہ دونو چل پڑتے ہیں

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے