عجیب رشتے (انسیسٹ) 4

 عدنان: تو اب کہاں جانا ہے 

حسن: تم لے آۓ ہو اب مرضی ہے جہاں لے چلو 

عدنان: ہاۓ میری جان چلو پارک میں چلتے ہیں وہاں کچھ دیر بیٹھیں گے اور پھر کچھ کھائیں پئیں گے

حسن اور عدنان دونو ایک پارک میں پہنچ کر بیٹھ گئے عدنان اب بار بار حسن کو چہرے کبھی ہاتھوں تو کبھی بالوں کو چھو رہا تھا حسن کو کچھ عجیب سا لگ رہا تھا مگر وہ چپ تھا کیونکہ اب پانی سر سے گزر چکا تھا اور حسن کو گانڈو بننا لازم ہو چکا تھا سو حسن دل ہی دل میں خود کو سمجھا رہا تھا اور مزہ لینے کی کوشش کر رہا تھا تاکہ وہ اب خود کو اس میں ڈھال لے وہیں اب عدنان بھی کچھ حد تک حسن کے دل میں اتر چکا تھا 

پارک میں کچھ دیر بیٹھے حسن اور عدنان باتیں کرتے رہے ایک دوسرے کی زندگی پسند نا پسند کی اور اس دوران عدنان حسن کو کافی بار چہرے اور ٹانگوں پر چھو چکا تھا 

پارک میں ایک آدھ گھنٹا بیٹھنے کے بعد عدنان بولا چلو حسن اب چلتے ہیں اب جا کر کچھ کھا پی لیتے ہیں اور دونو گاڑی میں بیٹھ کر چل۔دیے اب عدنان گاڑی چلاتے ہوۓ اپنا ایک ہاتھ حسن کی ٹانگوں پر رکھ کر سہلانے لگا حسن کو یہ سب تھوڑا عجیب اور گد گدا سا لگ رہا تھا مگر حسن اب خود کو سمجھانے میں لگا ہوا تھا اور مزے لینے کی کوشش کر رہا تھا مگر وہ ناکام تھا سو چپ چاپ بیٹھا رہا کچھ ہی دیر بعد عدنان نے گاڑی۔ایک پیزا ماٹ کے سامنے روکی اور حسن کو کہا کہ پیزا کھانا ہے یا۔کچھ اور حسن بولا پیزا صحیح ہے اور وہ دونو اندر جا کر بیٹھ گئے حسن شہر بہت کم آتا جاتا تھا اور ایسے بڑے ہوٹلوں میں تو وہ کبھی اس سے پہلے نہیں آیا تھا اتنا خوبصورت ہوٹل حسن کو بہت اچھا لگا کچھ ہی دیر ںعد پیزا آ گیا اور دونو کھانے لگے اسی دوران عدنان نے دربار حسن کو اپنے ہاتھ سے پیزا کھلایا سو حسن نے بھی ایک بار پیزا کا ٹکڑا توڑ کر اپنے ہاتھ سے عدنان کو کھلا دیا عدنان کافی خوش ہوا حسن کو ایسے اب محسوس ہو رہا تھا جیسے وہ کوئی لڑکا نہیں لڑکی ہو کیونکہ عدنان اسے ایسے ہی پیار سے دیکھ اور ٹریٹ کر رہا تھا کھانے سے فارغ ہو کر عدنان حسن کو بازار لے گیا حسن تو بس گاڑی میں بیٹھ کر مزے لے رہا تھا کیونکہ شہر اور وہ بھی گاڑی پر گھومنا حسن کو۔پہلے نصیب نا ہوا تھا 

ںازار جا۔کر عدنان حسن کو ایک شاپ میں لے گیا اور گفٹ پسند کرنے کا کہا مگر حسن نے انکار کر۔دیا مگر عدنان نے زد کر کے اسے مجبورا کر دیا اور پھر حسن کو پرفیوم اور ایک پینٹ شرٹ اور جوتے لے کر دیے اب حسن کو بھی مزہ آ رہا تھا کیونکہ اس ڈے پہلے اتنا پیار اور چیزیں تو اس کے باپ نے بھی اس کو لے کر نہیں دی تھیں شاپنگ کر کے دونو باتیں کرتے گھر کی طرف چل پڑے اپنے گاؤں سے کچھ دور ہی تھے عدنان بولا حسن میرے ساتھ گھر آؤ گے نا حسن یہ سن کر تھوڑا سوچ میں ڈوبا اور بولا نہیں کافی دیر۔ہو گئی گھر جاؤں گا تبھی عدنان بولا میری جان آ جاؤ گھر کچھ ٹائم میری ساتھ گزار لینا پھر چلے جانا 

حسن اتنا سب کچھ لیے بیٹھا تھا اور ویسے بھی ایک نا ایک دن اسے گانڈ تو مروانی ہی تھی سو بولا ٹھیک ہے اور عدنان اسے گھر لے گیا گھر پہنچ کر عدنان نے سامان رکھا اور حسن کے ساتھ بیٹھ گیا اور حسن کے جسم کو چھونے لگا 

حسن سمجھ گیا کہ اب اس کی چدائی کی باری ہے حسن مزہ لینے کی کوشش کر رہا تھا مگر اسے بلکل مستی یا مزہ نہیں آ رہا تھا تبھی عدنان نے حسن کو کہا کہ چلو بیڈ روم میں چلتے ہیں حسن جانتا تھا کہ موت سر پر ہے سو چپ چاپ چل پڑا بیڈ روم میں حسن یونہی داخل ہوا عدنان نے حسن کو اپنی باہوں میں دبوچ کیا اور حسن کے ہونٹوں پر زور سے چومنے لگا حسن ایک بار تو ڈر سا گیا مگر کچھ ہی دیر بعد اب اسے اچانک مزہ آنے لگا 

عدنان کا پہلوانی جسم میں خود کو جکڑے محسوس کر کے اور اس کے ہونٹوں کا لمس حسن کو اب مست کر رہا تھا تبھی عدنان ںے حسن کے کپڑے اتروائے اور پھر اپنے کپڑے بھی اتارنے لگا حسن بلکل ننگا بیڈ پر لیٹا پڑا تھا وہیں سائیڈ پر کھڑا عدنان اپنے کپڑے اتار رہا تھا عدنان نے اپنے قمیض اتاری عدنان کا جوان پہلوانی جسم دیکھ کر حسن کو اب اور زیادہ پیار آنے لگا مگر جونہی عدنان نے اپنی شلوار اتاری اور اس کا 9 انچ کا لمبا اور کسی سانپ کے جیسا موٹا لن حسن دیکھ کر ڈر سا گیا اس کی آنکھیں کھلی کی کھلی رہ۔گئی عدنان اپنے کپڑے اتارنے کہ بعد حسن کے اوپر لیٹ گیا اور اسے اپنی باہوں میں بھر کر پاگلوں جیسے چومنے لگا حسن کو اپنا ننگا جسم عدنان کے ساتھ محسوس کر۔کے اور اس کی باہوں میں آ کر مزہ آنے لگا تھا وہیں عدنان کا لمبا موٹا لن حسن کی جہانگو پر اس کے 8 انچ پتلے لن پر رکڑ کھا رہا۔تھا حسن کو اب مزہ آ رہا تھا کچھ دیر یہ کھل چلا پھر عدنان نے حسن کو الٹا لیٹ جانے کا کہا اور خود حسن کو پیچھے کہ باہوں میں کے کر دوبارا چومنے لگا 

اب کی بار عدنان کا لن حسن کی گانڈ کے چیرے کے اوپر تھا جسے اوپر ںنیچھے کر کے حسن کی گانڈ پر مسل۔رہا تھا اور اسے چومے جا رہا تھا حسن کو اپنی گانڈ پر عدنان کا موٹا لن محسوس کر کے مزہ آ رہا تھا حسن اب اس سب کو کافی انجوائے کر دہا تھا کچھ دیر بعد عدنان نے حسن کو کہا کہ اب لن اندر ڈالنا ہے حسن یہ سن کر ڈر سا گیا کیونکہ عدنان کا لن حسن کی امید سے کافی بڑا اور موٹا تھا حسن بولا نہیں اندر نہیں تم باہر ہی فارغ ہو جاؤ یا میں تمھاری مٹھ مار دیتا ہوں جسے سن کر عدنان بولا میری جان نہیں اندر ڈالوں گا اور درد زیادہ نہیں ہو گا تمھے مزہ آۓ گا اور پھر زبر دستی حسن کو گھوڑی بنا کر اس کی گانڈ پر آئل لگا دیا اور اپنے لن پر بھی حسن کو اب ڈر لگنے لگا تھا تبھی عدنان اپنا لن کا ٹوپا حسن کی گانڈ کے سوراخ پر رگڑنے لگا حسن کو ایک عجیب سی لذت اور مزہ مل رہا تھا کچھ دیر یہ مزہ رہا اور پھر اچانک عدنان اپنا لن حسن کے سوراخ پر رکھ کر تھوڑا دبانے لگا جونہی لن کا تھوڑا سا منہ اندر ہی گیا۔تھا کہ حسن کی درد سے جان نکل گئی اور وہ تڑپ کر سائیڈ ہو۔گیا عدنان بولا میری جان تھوڑا سا درد ہو گا پھر مزہ ہی مزہ ہے مگر حسن سمجھ گیا کہ اب اس کی موت ہے 

عدنان نے اب حسن سے کہا کہ چلو اندر نہ۔لو۔اوپر اوپر رگڑنے دو جس پر حسن مان گیا تبھی عدنان اپنا لن پھر سے حسن کے گانڈ کے سوراخ پر رکھ کر رگڑنے لگا جس پر حسن کو پھر سے مزہ آنے لگا تھا تھوڑی ہی دیر بعد عدنان نے اپنا لن گانڈ کے سوراخ پر فٹ کیا اور ایک دم زور دار جھٹکا لگا کر حسن کو پیٹ سے جگڑ لیا تا کہ وہ بھاگ نہ سگے اس جھٹکے سے عدنان کے لن کا پورا ٹوپا حسن کی گانڈ کے سوراخ میں گھس گیا سور حسن کی ایک زوردار چیخ نکل۔گئی۔اور وہ درد سے بے حال ہو گیا اس نے عدنان سے چھڑانے کی کوشش کی مگر ناکام رہا عدنان کچھ دیر وہیں لن ڈالے پڑا رہا اور حسن درد سے بلکتا رہا کچھ دیر گزرنے کے بعد حسن کر درد کم ہو گیا تبھی عدنان اپنا لن آہستہ آہستہ آگے پیچھے کرنے لگا حسن کو پر جھٹکے کے ساتھ درد ہو رہا تھا مگر وہ اب مجبور تھا کچھ دیر بعد عدنان آہستہ آہستہ چھٹکے مار کر اپنا۔آدھا لن حسن کی گانڈ میں لے گیا اور پھر آخری کے چند زوردار جھٹکوں کے ساتھ ہی حسن کی گانڈ میں فارغ ہو گیا حسن ابھی تک درد میں تھا کچھ دیر ںعد جب حسن کا درد کم ہوا تو حسن اٹھنے لگا تبھی عدنان بولا کہاں جا رہے ہو حسن نے کہا کہ گھر تبھی عدنان بولا کہ رکو تھوڑی دیر بعد جانا اور حسن کو پکڑ کر چومنے اور منانے لگا کہ اب پہلی بار ایسا ہوتا ہے اب دوبارا نہیں ہو گا درد مگر حسن نہیں مان رہا تھا اور آخر کار عدنان نے پھر سے زبردستی حسن کو پکڑا اور پھر سے ایک ہی جھٹکے میں اپنا لن حسن۔کو گھسیڑ ڈالا حسن پھر سے درد سے کراہنے لگا اور وہیں عدنان چھٹکوں یہ جھٹکے مارت حسن کو چودھے جا دہا تھا عدنان کی اب دوسری بار تھی اس لیے وہ اب کافی ٹائم لے رہا تھا فارغ ہونے کے لیے وہیں حسن کی جان ایک۔ایک۔جھٹکے سے نکل۔رہی۔تھی۔کیونکہ۔ہر جھٹکا لن اور اندر جاتا تھا اور پھر آخر کار عدنان کا پورا لن ٹٹوں تک حسن۔کی۔گانڈ۔میں اتر گیا عدنان حسن کو تقریباً 20 منٹ تک چودھتا رہا اور پھر دوسری مرتبہ پھر حسن کی گانڈ۔میں فارغ ہو گیا اور پھر سائیڈ پر۔لیٹ کر ہانپنے لگا حسن۔کی۔درد سے حالت خراب تھی حسن۔سے ہلا بھی نہیں جا رہا تھا حسن اور عدنان بنا۔کچھ بولے وہیں لیٹے رہے 

کچھ دیر بعد جب حسن کی حالت سنبھلی تو وہ اٹھ کر بیڈ سے نیچے اترا حسن سے صحیح سے چلا بھی نا گیا اس کا جسم قمر اور گانڈ بہت زیادہ درد کر رہے تھے وہ بیڈ سے مشکل سے اترا اور نیچے پڑے اپنی شلوار اور قمیض اٹھا کر پہننے لگا کپڑے پہنتے ہوۓ حسن کی نظر عدنان پر پڑی جو بیڈ پر بلکل ننگا لیٹا آنکھیں بند کیے پڑا تھا حسن کی نظر عدنان پر گئی وہ عدنان کو اس کے چہرے سے لے کر اس کی چوڑھی چھاتیوں اور پیٹ سے دیکھتا اس کے لن تک جا پہنچا حسن عدنان کو نا جانے کیوں اتنا غور سے دیکھ رہا تھا عدنان کا لن جو اب نارمل ہو چکا تھا مگر پھر بھی کسی سانپ کے جیسے لمبا اور موٹا لگ رہا تھا حسن کپڑے پہن کر کمرے سے نکلنے ہی لگا کہ آچانک عدنان آٹھ گیا وہ ویسے ہی ننگا بیڈ سے اٹھ کر حسن کے پاس آ کھڑا ہوا حسن ڈر گیا کہ کہیں اب پھر عدنان اس کی گانڈ نا مارے کیونکہ حسن کا درد سے ابھی تک برا حال تھا عدنان حسن کے قریب آیا اور اسے پیار سے چومتے ہوۓ بولا جان زیادہ درد ہے تو کچھ دیر رک جاؤ میں تمھیں ایک دوائی لگا دیتا ہوں صحیح ہو جاۓ گا مگر حسن اب ایک پل بھی نہیں رکنا چاہتا تھا سو وہ تھوڑا غصے میں عدنان کی باہوں سے خود کو چھڑا کر باہر نکل آیا 

عدنان بہت ہلکے ہلکے قدم رکھ کر چلتا جا رہا تھا عدنان کا لمبا موٹا لن پہلی بار لے لینا آ سان کام نہیں تھا شام ہونے والی تھی حسن گھر پہنچا تو سامنے صحن میں کوئی نہیں تھا حسن خود کو سنبھالنے اور صحیح چلنے کی کوشش کر رہا تھا مگر جتنا وہ صحیح سے چلتا اس کو اتنا درد ہوتا حسن جونہی ڈراینگ روم میں داخل ہوا سامنے اس کی ماں اور بہن بیٹھی باتیں کر رہی تھی نادیہ باجی سبزی کاٹ رہی تھیں اور امی بھی اس کی مدد کر رہی تھیں حسن نے سلام کیا جس کا جواب دونس نے دیا اور حسن کمرے کی طرف چل پڑا حسن کی ماں حسن سے خیریت دریافت کی جس پر چلتے ہوۓ حسن نے بس ٹھیک ہوں امی کہا اور کمرے میں چلا گیا 

حسن مشکل سے خود پر قابو رکھ کر ماں اور بہن کے سامنے صحیح سے چل کر آیا تھا مگر کمرے میں آ کر اس کی حالت خراب تھی حسن نے مشکل سے یونیفارم بدلا اور بستر میں گھس گیا اور اچانک سو گیا 

نادیہ اس دوران کمرے میں آئی اور حسن کو کچھ بولا بھی مگر جب حسن کو کوئی جواب نا آیا تو اس نے دیکھا تو وہ سو رہا تھا اس لیے وہ بھی کمرے سے باہر چلی گئی 

شام کو کھانا لگا مگر حسن سوتا رہا حسن کی ماں نے نادیہ سے کہا کہ جا کر بھائی کو جگا دو کھانا تو کھا لے جس پر نادیہ نے کہا کہ امی سونے دو جب رات کو اٹھا تو میں اسے کھانا دے دوں کی شاید آج تھکا ہوا تھا بھائی نادیہ بھی آج سوچ میں تھی کہ آج پھر حسن کو کیا ہوا پہلے تو وہ کبھی ایسے شام سے پہلے نہیں سویا آج اسے کیا ہوا 

رات کو تقریباً 11 بجے کا ٹائم تھا حسن کی آنکھ کھل گئی حسن نے دیکھا تو کمرے میں بلکل اندھیرا تھا جب اس نے نادیہ باجی کی چارپائی کی طرف دیکھا تو وہ بھی سو رہی تھی حسن آٹھ کر باتھروم چلا گیا حسن کی گانڈ کا درد کم ہو چکا تھا مگر ابھی بھی کبھی کبھی تھوڑا تھوڑا درد ہوتا تھا اسے حسن کو بھوک بھی لگی تھی مگر اس نے سوچا کہ اب باجی سو رہی ہیں سارا دن کی تھکی ہوئی ہوتی ہیں اس کو نہیں جگاتا سو باتھروم سے نکل کر وہ کمرے میں آگیا اس نے سوچا کہ چیک کر لیتا ہوں کہ باجی جاگ دہی یا سو رہی وہ نادیہ کہ بیڈ کے سرھانے کھڑا ہو گیا اور نادیہ کا منہ ڈے بستر اتار کے دیکھا تو نادیہ آنکھیں بند کیے نیںد میں تھی حسن بستر واپس اوڑھنے ہی والا تھا کہ نجانے اچانک اس کی نظر باجی نادیہ کے مموں پر جا پہنچی باجی نادیہ کہ ممے تو ویسے بھی اچھے خاصے بڑے اور گول مٹول تھے مگر سوتے ہوۓ اس کی قمیض کے گلے سے کافی حد تک نمایا تھے حسن ان کو دیکھ کر رگ گیا اور ان کی خوبصورتی کو بڑے غور سے دیکھنے لگا شاید حسن کی زندگی میں یہ پہلی بار تھا جب وہ کسی عورت کو حقیقت میں اپنی سامنے ایسے دیکھ رہا تھا حسن کافی دیر کھڑا یونہی نادیہ کہ ںڑے مموں کو تاڑتا رہا تبھی اسے خیال آیا کہ وہ یہ کیا کر رہا یہ تو اس کی سگی باجی نادیہ ہے یہ سوچتے ہی اس نے خود کو برا بھلا کہا اور نادیہ کہ اوپر بستر اوڑھ کر چپ چاپ بستر پر آ لیٹا مگر نادیہ باجی جاگ چکی تھی حسن کے کمرے سے نکلتے وقت دروازے کی آواز سے نادیہ کو جاگ آگئی تھی اور نادیہ اس وقت بھی جاگ رہی تھی جب حسن نے اس کا بستر اتار کر دیکھا مگر وہ نا جانے کیوں چپ چاپ پڑی رہی مگر وہ یہ نہیں جانتی تھی کہ حسن اس وقت کیا دیکھ رہا تھا 

حسن یونہی بستر پر لیٹا تو نادیہ کی آواز آئی

نادیہ: حسن کھانا لا دون

حسن اچانک نادیہ کی آواز سن کر چونک سا گیا کیونکہ وہ تو اسے سویا ہوا سمجھ رہا تھا 

حسن: وہ۔۔۔جی۔۔۔نی باجی بھوک تو لگی ہے 

نادیہ: ہنستے ہوۓ تو پاگل مجھے اٹھا دیتے میں نے پہلے تمھیں اٹھایا نہیں سوچا سونے دوں یہ کہتے نادیہ بستر سے اٹھ کر کمرے سے نکلنے لگی اور کچن میں چلی گئ اور کچھ دیر بعد کھانا لے کر آ گئی 

حسن اپنے ہی بستر پر سیدھا ہو کر بیٹھ گیا نادیہ نہ کھانا رکھا اور بیڈ کی دوسری سائیڈ حسن کے سامنے بیٹھ گئی حسن نے کھانا شروع کیا 

نادیہ: حسن کیا بات ہے آج جلدی سو گئے تھے 

حسن: کچھ نہیں باجی بس آج سر درد تھا تھوڑا اس لیے لیٹ گیا تو ناجانے کب آنکھ لگ گئی 

نادیہ: اچھا سردی میں سارا دن گھومتے ہو نا اس لیے تمھیں کتنی بار کہا ہے کہ سر پر ٹوپی کر کے جایا کرو

حسن: باجی اب پھر آپ آمی کہ جیسے شروع ہو گئی

جس پر نادیہ نے ہنس کر کہا اچھا نہیں شروع ہوتی کھانا کھاؤ 

حسن کھانا کھانے لگا کہ آچانک اس کی نظر باجی نادیہ کہ مموں پر ایک بار پھر چلی گئی ویسے تو نادیہ گھر میں ہمیشہ سر پر ڈوبٹا کیسے دکھتی تھی اور اپنے سینے کو بھی ڈھانپا کرتی تھی مگر آج رات کو نید سے بیدار ہو کر اس نے ڈوبٹا نہیں لیا ہوا تھا اور وہ بنا ڈوبٹے حسن کہ سامنے بیٹھی تھی حسن بار بار اپنی نظروں کو روک رہا تھا مگر باجی نادیہ کے سڈول موٹے گول مڈول ممے جو ایک قیامت ڈھا رہے تھے حسن کی آنکھیں خود بخود روکنے کے باوجود ان پر پہنچ جاتی 

حسن تھوڑا پریشان بھی تھا ایک طرف اس کا ضمیر اسے ملامت کیے جا رہا تھا کہ وہ اپنی ہی سگی بہن کے جسم کو دیکھ رہا وہیں دوسری طرف اس کے اندر کی مردانگی اور پیاس اسے باجی کہ مموں سے اپنی نظریں نہیں ہٹانے دے رہی تھی 

نادیہ ان سب باتوں سے انجان تھی اسے علم بھی نہیں تھا کہ اس کا سگا بھائی اس وقت اسے کن نظروں سے دیکھ رہا ہے وہ حسن کے سامنے بیٹھی اپنے موبائل میں گیم کھیلنے میں مصروف تھی نادیہ باجی کی عادت تھی وہ فارغ وقت میں موبائل پر کینڈی کرش گیم کھیلتی تھی 

حسن بار بار خود جو روک رہا تھا اس کے ضمیر اور نفس کی جنگ جاری تھی مگر ہر بار اس کا نفس جیت رہا تھا اور وہ نا چاہتے ہوۓ بھی باجی کہ ان سڈول اور خوبصورت مموں کو دیکھے جا رہا تھا اور پھر اس نے خود کو۔روکنے کی ترکیب سوجھی اور کھانا ختم کر کے بولا بس باجی کھا لیا

نادیہ نے موبائل چھوڑا اور کھانے جے برتن سمیٹنے لگی نادیہ جونہی برتن اٹھا کر بیڈ سے اٹھی تو حسن کی نظر اس کی موٹی گانڈ پر جا ٹکی حسن کی تو مانو جیسی جان نکل گئی ہو ایسی خوبصورت گول مٹول نکلی ہوئی گانڈ نادیہ چلتے جا رہی تھی اور حسن کی نظریں ن

باجی کی موٹی گاںڈ جس کے چوتڑ ہل ہل کر قیامت بپا کر رہے تھے حسن کی تو حالت خراب ہو چکی تھی وہ بھول گیا کہ وہ کسی اور کو نہیں بلکے اپنی ہی سگی بہں کو دیکھ رہا نادیہ جب کمرے سے باہر گئی تو حسن اپنے ہوش میں آیا جب حسن نے محسوس کیا تو اس کا لن پوری طرح سخت ہو چکا تھا حسن حیران پریشان ہونے کے ساتھ ساتھ کافی پشیمان بھی تھا کہ آج یہ کیسی حماقت ہو گئی اس سے اس نے اپنی ہی سگی بہن پر۔۔۔۔۔

حسن کو اب خود سے نفرت سی ہو رہی تھی کہ اس نے کتنا بڑا گناہ کیا ہے تب تک نادیہ کمرے میں آکر دوبارا سو گئی حسن بھی اپنے بستر میں گھس گیا کچھ دیر خود کو اس بات پر ملامت کرتا رہا

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے