عجیب رشتے (انسیسٹ) 5

 

اور پھر حسن نے خود سے وعدہ کیا۔کہ۔جو کچھ آج اس نے کیا ہے وہ پھر نہیں کرے گا اور باجی کو ایسی نظروں سے نہیں دیکھے گا اور پھر اپنی سوچ کو باجی سے ہٹانے کے لیے وہ عدنان کے بارے سوچنے لگا عدنان کا سوچتے ہی ایک عجیب سا میٹھا سا درد اس کے تن بدن میں دوڑ گیا حسن گانڈو تو نا تھا مگر نا جانے کیوں عدنان جیسا مرد اسے بھا سا گیا تھا اس کی گانڈ میں اب درد کافی کم تھا حسن لیٹا سوچ رہا تھا تبھی اس کی نظروں میں عدنان جا وہ سڈول مردانگی بھرا جسم آیا جو کوئی بھی دیکھ کر اپنا دل سے بیٹھتا حسن کو اب عدنان سے تھوڑا تھوڑا پیار سا ہونے لگا تھا مگر وہ اس درد سے بھی ڈرتا تھا جو عدنان نے اسے دیا تھا کافی دیر یہ سب سوچتے حسن سو گیا 

صبح کا آغاز معمول کے مطابق باجی نادیہ کے جگانے سے شروع ہوا اور حسن نہا دو کر ناشتہ کر کے گھر سے سکول کی طرف نکل پڑا حسن یونہی عدنان کے گھر کے سامنے سے گزرا تو حسن کا اندازہ تھا کہ عدنان اس کے انتظار میں ہو گا مگر وہاں کوئی نا تھا سو حسن سکول کی طرف چلا۔گیا سکول میں بریک ٹائم اسے کاشف ملا 

کاشف آتے ہی عدنان سے ہنستے ہوۓ چپک پڑا اور تنظریہ انداز میں بولا کہ سناؤ جانی کل کا دن کیسا رہا 

حسن کاشف کی ںات سن کر اسے اگنور کرنے کگا اور بس اتنا کہا کہ صحیح رہا 

کاشف کو حسن سے اس جواب کی امید نہ تھی سو وہ حسن سے بولا کہ یار عدنان کے پاس گئے تو کیا کہا اس نے پھاڑ ڈالی تمھاری اور کل سکول بھی نہیں آئے کہیں ہسپتال تو نہیں پڑے رہے اور یہ بول کر وہ ہنسنے لگا

حسن کاشف سے جان چھڑانے کی کوشش کر رہا تھا اور وہ اسے کچھ بتانا بھی نہیں چاہتا تھا مگر حسن وہ سب باتیں کسی سے شیئر بھی کرنا چاہتا تھا مگر کاشف کے اس بے وقوفانہ انداز اور باتیں دوسروں کو بتا دینے کے ڈر سے چپ تھا

کاشف بار بار حسن سے پوچھ رہا تھا تو حسن سے بھی رہا نہ گیا اور اسے الف سے ی ساری کہانی اس شرط پر سنا ڈالی کہ وہ اس بات کا زکر کسے سے نہیں کرے گا جس پر کاشف نے حامی بھر لی

کاشف بہت دیر بنا کوئی مزاق شرارت کیسے حسن کی باتوں کو سنتا رہا اور جب حسن اپنی ساری کہانی سنا چکا تو بولا 

یار تم تو بہت چلاک نکلے میں تو کئی لڑکوں سے پہلے بھی گانڈ مروا چکا تھا مگر پھر بھی جب عدنان نے ڈالا تو میری جان نکل گئی تھی اور تم تو پہلی بار ہی عدنان کا لے گئے 

حسن کاشف کی ںات سن کر بولا میں نے شوق سے نہیں لیا مجھ سے زبردستی ڈالا اس ںے اور ابھی بھی تھوڑی تھوڑی گانڈ دکھ رہی 

کاشف حسن کی یہ بات سن کر بولا کوئی بات نہیں میرے شیر پہلی بار ایسا ہوتا ہے اب دوسری بار دیکھنا تمھیں مزہ آۓ گا 

حسن کاشف کی یہ بات سن کر فوراً بولا نہیں یار میری تو اب توبہ ہے میں دوبارا تو وہاں نہیں جانے والا 

کاشف یہ بات سن آنکھیں بند کیے مستی جیسا منہ بنا کر بولا اففف یار میرا بس چلے تو عدنان کے پاس ہی دہ جاؤ ہمیشہ کے لیے اس کی بیوی بن کر اور تم تو لکی ہو جو وہ تم پر عاشق ہوا ایسے مرد قسمت والوں کو ملتے ہیں

حسن کو کاشف کی یہ بات بہت عجیب لگی اور حسن گھن کھاتے بولا یار تمھاری سوچ بہت غلط ہے مردوں کے لیے عورتیں ہوتی ہیں نا کہ وہ خود گانڈ مرواتے ہیں میں مجبور تھا ورنہ۔یہ کام کبھی نا کرتا 

کاشف حسن کی یہ بات سن کر کافی سنجیدگی سے بولا

دیکھو حسن گانڈو ہونے یا گانڈ مار نے کا مطلب یہ نہیں کہ تم مرد نہیں ہو عورت کے ساتھ سیکس کرنے اور عورت کا مزہ الگ ہے وہیں مرد سے سیکس کرنے اور پیار کا مزہ اور احساس الگ ہے اور سیکس میں سیسے بھی بس مزہ ہوتا ہے وہ چاہے تمھیں عورت سے ملے یا کسی مرد سے میرے خیال میں اس میں کوئی برائی نہیں 

دیکھو حسن تین قسم کے لوگ ہوتے ہیں ایک وہ جن کو صرف لڑکیاں پسند ہوتی ہیں جیسے تم اور کچھ جن کو صرف مرد پسند ہوتے جیسے عدنان اور کچھ ایسے بھی ہوتے ہیں جو آل راؤنڈر ہوتے ہیں یعنی لڑکیوں پہ بھی مزے لیتے اور لڑکوں پر بھی جیسا میں کو سو میری تو یہی سوچ ہے کہ مزہ ہر چیز کا اپنا ہے اور وہ مزہ لو 

حسن چپ چاپ کاشف کی باتیں سنتا جا رہا تھا اور حسن کچھ حد تک کاشف کی بات سے متفک بھی تھا کیونکہ اسے عدنان سے تھوڑا پیار تو ہو چکا تھا اس کا بھرا ہوا پہلوانی جسم جس کی باہوں میں حسن کو کافی سکون ملا تھا اس کے پیار کا احساس عدنان کا حسن کی کئر کرنا اور اسے پیار سے ٹریٹ کرنا سب حسن کو کافی پسند بھی آیا تھا اور وہیں خالہ پروین جیسی عورتوں اور لڑکیوں جن کو حسن خیالوں میں ہی چودھتا تھا ان کا ایک الگ مزہ تھا 

حسن کاشف کی باتیں سن کر سمجھ گیا کہ وہ بھی ایک آل راؤنڈر ہے مگر نا جانے کیوں عدنان کے علاؤہ اسے اب کسی اور لڑکے میں وہ مزہ اور فیلنگ نہیں آتی تھی 

حسن عدنان سے دوستی رکھنا تو چاہتا تھا مگر وہ گانڈ مروانے کا درد یاد کر کے اپنا فیصلہ ترک کر لیتا

سکول سے چھٹی کے بعد ٹویشن سے فارغ ہو کر وہ گھر کو جا رہا تھا حسن نا جانے کیوں سارے راستے عدنان کو ہی ڈھونڈھتا رہا مگر وہ اسے کہیں نظر نا آیا حسن اب جان چکا تھا کہ جو بھی ہو اسے عدنان کا احساس اچھا لگا تھا اور اب اسے عدنان کی عادت سی پڑھ چکی ہے مگر عدنان اسے کہیں نہیں مل رہا تھا 

گھر پہنچ کر بھی حسن کا دھیان صرف عدنان کے بارے سوچنے پر تھا کہیں عدنان اس کی گانڈ مارنا چاہتا تھا جو اس نے مار لی اور اب کسی اور لڑکے کو ڈھونڈنے گا مگر وہیں حسن سوچتا کہ وہ اس سے پیار کرتا ہے وہ اسے ملے گا 

حسن کو پہلے اس سب کو برا سمجھتا تھا اب عدنان کے پیار میں ڈوبا جا رہا تھا اسے بار بار عدنان کی مضبوط باہیں یاد آ رہی تھی جس میں عدنان حسن کو دبوچ کر اسے پیار کرتا تھا حسن کو تب کافی سکون اور مزہ ملا تھا 

گھر میں سارا ٹائم حسن اپنے خیالوں میں رہا اور رات جلدی سو گیا 

دوسری طرف نادیہ حسن کے ان بدلے رویوں سے کافی پریشان تھی کیونکہ نادیہ بچپن سے ہی حسن کے ساتھ بہت اٹیچ رہی تھی نادیہ حسن سے بڑی تھی تو حسن کو اپنے ہاتھوں سے پالا تھا اور گھر میں حسن ہی تھا جو اس کا دوست تھا جس سے باتیں کر جے نادیہ تھوڑا اچھا محسوس کرتی تھی ورنہ سارا دن گھر میں اکیلی کام کر کر جے وہ تھک اور اکتا چکی تھیں وہیں اب حسن بھی اپنی دنیا میں مگن رہتا تھا اور نادیہ سے اب باتیں بھی نہیں کرتا تھا 

نادیہ بھی جوان تھی اور اس کی شادی کی عمر بھی گزری جا رہی تھی اس جے اندر بھ سیکس اور مرد کی طلب کافی تھی نگر عورت ہونے جے ناطے اور ہمارے معاشرے کے اصول وضوابط کو مدنظر رکھتے ہوۓ باقی لڑکیوں کی طرح وہ بھی ان کو چھپاۓ رکھتی تھی اور جب یہ طلب اور اس کی گرمی حد سے بڑھتی تو وہ مجبور ہو کر اپنی پھدی میں انگلی کر کے پانی نکال لیتی جس سے اس کو کچھ حد تک سکون مل جاتا مگر اب اس سے اور صبر نہیں ہوتا تھا نادیہ اپنے ہی چابوص کے بیٹے حمید پر عاشق تھی حمید پڑھا لکھا سلجھا ہوا انسان تھا اور کافی خوبصورت بھی تھا حمید نادیہ سے عمر میں 2 سال چھوٹا تھا اچھی نوکری بھی تھی اس کی مگر نادیہ کی اب تو حالت یہ تھی کہ اسے اب کوئی بھی مرد مل جاتا وہ اس سے شادی کرنے کے کیے بے تاب تھی مگر گھر جے حالات اور خاندان میں باقی کم عمر لڑکیاں ہونے کی وجہ اسے نادیہ کے لیے رشتے کم ہی آتے اور اگر کوئی آ بھی جاتا تو اس کے ماں باپ لڑکے کو منع کر دیتے کیونکہ اس عمر جی لڑکی سے وہی لڑکا شادی کرتا جس میں کوئی نقص ہوتا جیسے زیادہ عمر غریب وغیرہ جس پر نادیہ کے امی ابو منع کر دیتے جس پر نادیہ اپنے جذبات دل میں دباۓ چپ ہو جاتی ورنہ کس کو معلوم تھا کہ نادیہ کا بس چلتا تو وہ روز کسی نا کسی مرد کا لن اپنی پھدی میں گھسواتی 

نادیہ ویسے تو سلجھی ہوئی ایک شریف لڑکی تھی اور ایسا کوئی کام اس نے حقیقت میں نا کیا تھا مگر اپنے ہی خیالوں میں وہ ایک بہت بےباک اور کھلے خیالوں والی لڑکی تھی جو کبھی حمید کبھی کسی اور لڑکے کو سوچ کر اپنے پھدے میں انگلی کر کے اسے ٹھنڈا کرتی تھی 

اس رات بھی نادیہ باجی کے صبر کا پیمانہ لبریز تھا اور وہ اپنے جذبات اور خارش کرتی پھدی پر قابو نہیں پا رہی تھی اسی کیے ںستر میں گھسے اپنی نازک خوبصورت انگلیاں اپنی پھدی میں ڈالے پھر اپنے کسی نئی خاندان کے لڑکے سے سوچوں میں پھدا مروا رہی تھی 

نادیہ کی سوچوں میں وہ اپنے دور کے رشتےدار جسے وہ چاچو کہتے تھے اس سے اپنا پھدا مروا رہی تھی جس کا نام چابو رفیق تھا چاچو رفیقِ ابو کہ کزن تھے جسے حسن کوگ بھی چاچو کہتے تھے ان کا حسن کے گھر زیادہ آنا جانا تو نہیں تھا مگر ایک دو بار آ چکے تھے اور وہ نادیہ کو بھی کافی گندی نظر سے دیکھتے تھے نادیہ کو کئی مرد بری نگاہ سے دیکھتے تھے اور اس پر نادیہ کو مزہ بھی آتا تھا اندر ہی اندر نادیہ کو خاندان کے ایسے مردوں کی نظریں اچھی لگ رہی ہوتی مگر حقیقت میں گھر اور ماحول کی وجہ سے وہ غصے اور آپنے جسم کو ڈھانپ کر یہ ظاہر کرنے کی کوشش کرتی کہ وہ ایک نیک شریف لڑکی ہے کیونکہ ہمارے معاشرے میں عورت کہ جزبات کی کبھی قدر نہیں کی گئی 

آج بھی باجی نادیہ اپنے جذبات سے مجبور چابو رفیق کے لن پر مزہ لے رہی تھی اور خیالوں میں ڈوبی اپنی پھدی میں انگلی کیے جا رہی تھی 

حسن اب ےک گہری نیند میں تھا مگر نادیہ پھر بھی خود پر قابو رکھ کر زیادہ زور سے انگلی نہیں کرتی تھیں کیونکہ اس کی پھدی سے نکلتا پانی اس کی انگلی کے اندر باہر ہونے سے کافی آواز کر رہا تھا نادیہ کا تو بس نہیں چل رہا تھا کہ وہ اپنی پھدی میں اس سپیڈ سے اںگلی۔کرتی کہ اس کی ساری خارش اور مزہ پورا ہو جاتا مگر عورت ہونے کی وجہ سے وہ اپنی آواز کے ڈر۔ سے وہ بچاری انگلی بھی صحیح سے نہیں کر پا رہی تھی 

نادیہ کا ہاتھ پورا کا پورا اس کی گانڈ کے سفید کیس دار پانی سے بھیگ چکا تھا اور نادیہ اپنے خیالوں کی دنیا میں گم چاچو رفیقِ کا لن اپنی شرمگاہ میں دباۓ لزت جی بلندیوں کو چھو رہی تھی تبھی کچھ دیر بعد آخرکار باجی نادیہ کی پھدی کا سمندر ٹوٹا اور باجی نادیہ کی پھدی سے لیس دار پانی کسی سیلاب کی طرح بہہ اٹھا اور لذت اور مزے کی ایک لہر نادیہ کے جسم میں دوڑ اٹھی جس کے پیش نظر نادیہ کی مستی سے بھری چند سسکیاں نکل گئی ان سسکیوں کی آواز کچھ دبی دبی مگر بہت مستی سے بھری تھی نادیہ نے اپنی آواز کو دبانے کی بہت کوشش کی مگر اس لمحے کچھ بھی اس کہ کنٹرول میں نہ تھا فارغ ہو کر نادیہ کافی سکون اور ہلکا محسوس کر رہی تھی مگر وہیں وہ اس ڈر میں بھی تھی کہ کہیں حسن جاگ نا رہا ہو اور اس نے نادیہ کی آواز سن نہ لی ہو مگر کچھ دیر بعد اسے اندازہ ہو گیا کہ حسن گہری نیند میں ہے اور وہ تھک کر سو گئی 

اگلی صبح روز کی روٹین کے مطابق تھی نادیہ کا حسن کو نیند سے جگانا حسن کا سب کا مل کر ناشتا کرنا اور حسن کو سکول کے کیے نکل جانا 

حسن آج بھی عدنان کے بارے سوچ رہا تھا آج تیسرا دن ہونے کو تھا مگر عدنان حسن کو کہیں نظر نہ آیا رستے میں بھی جاتے وقت اس نے عدنان کو ڈھونڈا مگر عدنان کہیں نظر نہ آیا اور حسن سکول کو چلا گیا 

سکول پہنچ کر حسن نے معمول کے مطابق کلاسیں لی اور بریک کا انتظار کرنے لگا تاکہ وہ کاشف سے اکیلے میں ملے اور اس سے عدنان کے بارے پوچھے بریک ہوتے ہی حسن کاشف کو لیے معمول کے مطابق گراؤنڈ کے ایک کونے میں جا بیٹھے اور باتیں کرنے لگے ادھر ادھر کی باتیں کرتے حسن بولا 

حسن: کاشف یار تم سے ایک بات پوچھنی ہے 

کاشف: بولو کیا بات ہے

حسن: یار تمھیں عدنان کا کچھ پتا ہے 

کاشف: تھوڑا مسکرتے ہوۓ تنزیںہ انداز میں بولا وہ دوست تمھارا ہے اور تم پوچھ مجھ سے رہے

حسن: یار تیں دن سے زیادہ ہو گئے اس دن اس بات سے بعد وہ مجھے نظر نہیں ایا 

کاشف: تو یار اسے کال کر لو پوچھ لو

حسن: یار میرے پاس اس جا نمبر نہیں ہے 

کاشف: حیرانگی ہے گانڈو اس سے گاںڈ مروا کی اور ابھی تک نمبر بھی نہیں تمھارے پاس

حسن: یار اس دن اس نے مجھ سے میرا نمبر لیا تھا میں سمجھا کال میسج کرے گا مگر اس نے بھی نہیں کیا 

کاشف: پھر ایسا کرو اس جے گھر جا کر پتا کرو 

حسن کو کاشف کا یہ مشورہ پسند آیا اور حسن نے چھٹی کے بعد جانے کا سوچا 

سکول سے چھٹی کے بعد حسن نے سوچا مہ ٹویشن پر آج نہیں جاتا اور عدنان کے گھر کی طرف چل پڑا 

عدنان کے گھر پر پہنچ کر دیکھا تو حسن کی امیدوں پر پانی پھر گیا عدنان کے گھر پر تالا لگا ہوا تھا حسن ناامید ہو کر گھر کی طرف چل پڑا گھر پہنچا تو نادیہ کپڑے دھونے میں لگی تھی اور امی صحن میں بیٹھی ابو سے باتیں کر رہی تھی حسن نے سلام کیا اور جا کر ابو کہ ساتھ چارپائی پر بیٹھ گیا حسن سے امی نے پوچھاحسن آج جلدی آ گئے حسن نے چھوٹ بول دیا کہ آج چھٹی تھی 

حسن کو ابو کافی پریشان لگے تو حسن نے پوچھ ہی کیا آبو آج پریشان لگ رہے ہیں 

جس پر حسن کے ابو کچھ نہ بولے بس اتنا کہا کہ کچھ نہیں بیٹا سب صحیح ہے مگر حسن کو ابو کہ اس جواب سے تسلی نہ ہوئی اور وہ پھر خاموش رہا اور تھوڑی یر بعد اٹھ کر کمرے میں چلا گیا حسن نے کپڑے چینج کیے اور ٹی وی لگا کر بیٹھ گیا تبھی حسن کی ماں ڈراینگ روم میں ائی اور حسن کے پاس بیٹھ گئی 

حسن: امی کیا ہوا ابو پریشان لگ رہے تھے اور آپ بھی پریشان لگ رہی سب ٹھیک تو ہے 

امی: بیٹا بس ٹھیک ہے سب بس کھیتوں میں کام کیا اتنا پر منافع خاص نہیں ہوا اور فصل بھی بہت خراب ہو گئی اسی کیے ابو پریشان تھے 

حسن یہ بات سن کر بولا امی پریشان نہ ہو سب ٹھیک ہو جاۓ گا اگکی بار منافع ہو جاۓ گا 

جس پر حسن کی ماں چپ کر گئی 

بیٹا اصل پریشانی تو تمھاری بہن ہے 

حسن امی کی یہ بات سن کر بولا کیوں امی باجی نے کیا کر دیا ایسا؟

امی: بیٹا اس بچاری نے کیا کرنا ہم تو اس کے رشتے سے پریشان ہیں عمر بڑھتی جا رہی مگر کوئی ڈھنگ کا رشتہ نہیں مل رہا تمھارے چاچو جمشید نے تمھارے چاچو سے حمید کے رشتے کی بات کی نادیہ کے کیے مگر انہوں نے انکار کر دیا ہے وہ حمید کا رشتہ کہیں اور کر رہے حسن اس بات سے انجان تھا کہ باجی نادیہ حمید سے پیار کرتی تھیں اور اب ان کو انکار کے بعد وہ کافی پریشان تھی 

حسن ماں کی یہ بات سن کر ماں کو تسلی دیتے بولا امی آپ پریشان نہ ہو آ جاۓ گا کوئی نا کوئی رشتہ اور باجی جیسی لڑکی تو نصیب والوں کو ملتی ہے میری بہن سے پیاری کوئی لڑکی اور اچھی کوئی نہیں ہے اور آپ کیسی باتیں کر رہی ہیں میں اب جوان ہوں اور میری بہن کسی پر بوج نہیں ہے اس کا بھائی زندہ ہے ابھی 

نادیہ کمرے کے باہر کھڑی ان سب باتوں کو سن رہی تھی نادیہ حمید سے رشتہ کہ انکار کے بعد اندر سے کافی ٹوٹ چکی تھی حسن کی یہ باتیں سن کر اسے اچھا تو کافی لگا کے اس کا بھائی اسے ماں باپ کے جیسے بوجھ نہیں سمجھتا مگر وہ اس بات سے پریشان تھی کہ اس کی ساری امیدیں ٹوٹتی جا رہی تھی اور اب اس جی محبت حمید بھی کہیں اور شادی کر رہا تھا 

حسن کی ماں حسن کو بولی بیٹا بیٹیاں کسی لر بوجھ نہیں ہوتی مگر بیٹیاں اپنے گھروں میں ہی اچھی لگتی ہیں اور جو عمر اب نادیہ کی ہے رشتے نہیں مل رہے کل کو ساری زندگی بھائی کے سر پر بیٹھی رہے گی 

حسن ماں کی بات سن کر تھوڑے غصے میں بولا تو امی جان بیٹھی رہے میری بہن مجھ پر بوجھ نہیں ہے اور ساری زندگی میرے پاس دہے گی مجھے کوئی فرق نہیں پڑتا

جس پر حسن کی ماں بولی بیٹا یہ سب پہلے کی باتیں ہوتی ہیں جب تمھاری بیوی آئی تو پتا تب چلے گا 

حسن ماں کی ان باتوں سے اکتا چکا تھا سو اتںا بوکا کہ ہاں دیکھ لیں گے اور چپ ہو گیا امی کچھ دیر بیٹھی رہی اور پھر باہر چلی گئی نادیہ بھی جو چھپ کر باتیں سن رہی تھی جلدی سے کام میں لگ کرگئی

حسن ٹی وی دیکھتے اسی سوچ میں گم تھا کہ آخر امی ابو باجی سے اتنا پریشان کیوں ہیں وہ باجی کو ایسے ٹریٹ کیوں کر رہے جیسے وہ ان کی بیٹی نہیں کوئی بوجھ ہو اتنے میں حسن کے موبائل پر کال آئی حسن نے جیب سے موبائل نکالا تو کوئی نیو نمبر تھا کال اٹینڈ کی تو سامنے سے اواز آئی 

میرے جان کیسے ہو یہ آواز سنتے ہی حسن فورا سمجھ گیا کہ یہ عدنان کی اواز ہی ہے حسن جلدی سے فقریہ انداز میں بولا 

کہاں ہو تم اتنے دن کہاں غاہب تھے کال تک بھی نہیں کی ۔۔۔

عدنان یہ سن کر بولا لگتا ہے مجھے کافی مس کیا ہے 

حسن یہ سن کر خاموش ہو گیا اور دل میں ہی بولا ہاں حد سے زیادہ مس کیا 

حسن: ابھی کہاں ہو 

عدنان: گھر پر ہوں اگر فری ہوتو آ جاؤ حسن یہ سن کر بولا آوکے میں آتا ہوں اور کال بند کر دی

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے