حسن جلدی سے اٹھا اور اپنے بال صحیح کر مے باہر نکل آیا امی کو بتایا کہ دوست کے گھر تک جا رہا ہوں اور گھر سے نکل آیا حسن کافی بے تاب تھا اور جلدی جلدی عدنان کے گھر کی طرف چلتا جا رہا تھاحسن خود بھی حیران تھا کہ آخر اسے کیا ہوا پہلے تو وہ ان سب سے دور بھاگتا تھا مگر آج نا جانے کیوں عدنان سے ملنے کو وہ بے تاب تھا حسن عدنان کے گھر پہنچ کر دروازہ کھٹکھٹانے لگا تبھی حسن کر دوبارا عدنان کی کام ائی اور بولا کہ دروازہ کھلا ہے اندر آ جاؤ اور پھر اندر ڈے کنڈی لگاتے آنا
حسن اندر داخل ہوا اور دروازے کو اندر سے کنڈی لگا کر کمرے کی طرف بڑھنے لگا حسن جونہی کمرے میں داخل ہوا تو سامنے عدنان بستر میں لیٹا پڑا تھا حسن کر دیکھتے ہی بولا آؤ میری جان حسن نے یونہی عدنان کو دیکھا اس کا پیار اور بڑھ کیا اوہ جلدی سے اس کے ساتھ بڑی چیئر کو آگے کھینچ کر عدنان کے قریب کیا سور پوچھنے لگا کہاں غائب تھے اتنے دن سے عدنان حسن کی بات سن کر اس ہاتھ اپنے ہاتھ میں تھامے بولا یار میری طبیعت خراب ہو گئی تھی تو شہر ہسپتال چلا گیا بخار تھا تو اُنہوں سے وہاں داخل کر لیا اج واپس آیا حسں یہ سن کر غصے سے بولا تو مجھے بتایا کیوں نہیں ایک کام یا میسج تک نہیں کیا
عدنان حسن کی یہ بات سن کر مسکراتے بولا لگتا ہے تمھیں بھی مجھ سے پیار ہو گیا ہے مجھے مس کیا ؟؟
حسن اب اپنے دل کی بات بوک دینا چاہتا تھا سو حسن بولا ہاں مس کیا تم نے مجھ سے دوستی کی مجھے اچھا لگا اور اب مجھے تم سے پیار ہو گیا ہے
عدنان یہ بات سن کر جلدی سے اٹھ بیٹھا اور حسن کا منہ اپنے دونو ہاتھوں میں کے کر اس کے ہونٹوں کو چومنے لگا کافی دیر عدنان حسن کی ہونٹوں کو چپکا رہا سور پھر بولا آج ڈے پھر تم میرے پکے دوست اور جان ہو حسن یہ سن ہنس دیا اور بولا مگر ایک شرط ہے
جس پر عدنان نے کہا مجھے ہر شرط منظور ہے بولو
حسن بولا کے اج کے ںعد مجھ سے کوئی بات نہیں چھپاؤ گے جس پر عدنان فوراً بولا کے وعدہ نہیں چھپاؤں گا
حسن کو اب عدنان پر بہت پیار آ رہا تھا اور وہ عدنان کی باہوں میں جھکڑے جانے کو بے تاب تھا وہ اس باہوں اور جسم کا لمس پھر سے محسوس کرنا چاہتا تھا اور پھر حسن سے رہا نہ گیا اور اس نے عدنان کو بول۔دیا
حسن: کیا میں بھی تمھارے ساتھ بستر میں لیٹ جاؤ
یہ سن کر تو مانو عدنان کی دکی مراد پوری ہو گئی ہو عدنان سے جلدی سے ایک سائیڈ ہوا اور رضائی کی ایک سائیڈ اٹھا کر حسن کر اندر آنے کا کہا حسن بھی جلدی سے عدنان کے ساتھ بستر میں گھس گیا
یونہی حسن کہ جسم سے عدنان کا جسم ٹچ ہوا حسن کو ایک عجیب سی لزت اور سکون محسوس ہوا اور حسن نے عدنان کی سائیڈ منہ کر کے اس کا سر اپنی کلائی کا رکھا حسن عدنان کا سر اور منہ اپنی باہوں میں کے کر پیار سے چومنے لگا اور اس کا باقی جسم عدنان کے جسم سے چپکا ہوا تھا حسن کو۔پہلی بار کسی مرد کے ساتھ اتنا مزہ آ رہا تھا اور مانو جیسے حسن اب عدنان کو دل سے اپنا شوہر سمجھ چکا تھا دونو ایک دوسرے سے پیار بھری باتیں کرتے چومتے اور جگڑتے رہے اور پھر کچھ ہی دیر بعد دونو کے جزبات کافی پھرک چکے تھے جس پر عدنان نے اپنے اور حسن کے بھی کپڑے اتار دیے
جونہی حسن کا ننگا جسم عدنان کے ننگے پہلوانی جسم سے ٹکرایا حسن کے جسم میں بجلی سی دوڑ گئی عدنان نے حسن کی گانڈ پر اپنا کالا موٹا لمبا لن رکھا اور گانڈ کے اوپر رگڑتے ہوۓ حسن کو اپنے پہلوانی باہوں میں دبوچ لیا حسن کے اندر سکون اور مزے کی ایسی لہر دوڑ گئی جس سے وہ اور زیادہ مست ہو گیا عدنان کچھ دیر حسن کی گانڈ کے اوپر اوپر اپنا لن مسلتا رہا اور حسن کو چومتا رہا مگر اب دونوں کا صبر ٹوٹ چکا تھا حسن اپنی گانڈمیں۔ لن لینے اور عدنان لن ڈالنے کے لیے بے تاب تھے سو عدنان نے حسن کو وہیں لیٹے اپنا لن اس کی گانڈ کے سوراخ پر رکھا اور ایک جھٹکا مار کر اپنے لن کا ٹوپا اس کی گانڈ میں اتار دیا حسن کو ٹوپا گھستے ہی کافی درد ہو مگر اس بار حسن خود لن مرضی اور مزے سے کے رہا تھا سو وہ اس درد کو سہن کر گیا عدنان اب آہستہ آہستہ جھٹکے لگاتا اپنا لن حسن کی گانڈ میں اتارتا جا رہا تھا اور کچھ ہی دیر بار عدنان کا لن حسن کی گانڈ میں جڑ تک گھس چکا تھا اور اب عدنان کے جھٹکوں کی رفتار بھی کافی تیز ہو چکی تھی وہیں حسن کی گانڈ کا درد اب اسے لذت اور مزے سے پھرپور لگ رہا تھا حسن بھی اب اپنی چدائی کے مزے لے رہا تھا اور وہیں عدنان اسے پوری آب وتاب سے چھٹکے مارے جا رہا تھا تقریبا 7 سے 8 منٹ بعد دونو کا سیلاب ٹوٹ گیا اور عدنان زوردار جھٹکوں کے ساتھ فارغ ہو گیا
دونو کچھ دیر یونہی لیٹ رہے اور پھر حسن نے کپڑے پہن کر نکلنے کا سوچا عدنان سے اسے روکا اور وہیں رات رہنے کا کہا مگر حسن نے کہا کہ شام ہو چکی سو اس کے گھر والے اس کے انتظار میں ہو گے جس پر عدنان نے ضد نہ کی اور اگکی بار ملنے کا وعدہ کر کے جانے دیا
حسن کو آج بھی تھوڑا درد تھا مگر اتنا زیادہ نہیں حسن گھر پہنچا نہیا اور پھر سب کے ساتھ مل کر کھانا کھانے لگا
حسن کی نظر جب ناجی نادیہ پر بڑی تو وہ کافی پریشان لگ رہی تھی حسن جان تو کیا تھا کہ باجی کس وجہ سے پریشان ہیں شاید امی ابو کی باتیں اور بار بار ہر رشتے سے ٹھکرا دینے کی وجہ سے مگر وہ کچھ نہ بولا اور کھانا کھا کر کچھ دیر امی اںو کہ ساتھ ٹی وی دیکھا اور پھر روم میں آ کر باجی نادیہ کا انتظار کرنے لگا
نادیہ کچن میں رات کے برتنوں کو دھونے میں مصروف تھی اور دل ہی دل میں کافی پریشان اور خود کو برابھلا۔کہے رہی تھی نادیہ ابھی یہی سمجھ رہی تھی۔کہ۔وہ دوسری لڑکیوں جیسی خوبصورت نہیں ہے اور تھوڑی موٹی ہے جس کی وجہ سے وہ کسی کو پسند نہیں آتی
نادیہ اپنے ہی دل سے گلے کر رہی تھی اور اپنے دل کا بوجھ ہلکا کر رہی تھی کچھ دیر بعد نادیہ گھر کے سارے کام سمیٹ کر سب بند کر مے کمرے میں سونے بلی گئی نادیہ جونہی کمرے میں داخل ہوئی تو حسن نادیہ کے انتظار میں ہی تھا نادیہ نے اپنا بستر صحیح کیا اور پھر جونہی لائٹ بند کرنے لگی حسن بولا باجی لائیٹ بند نہ کرو نادیہ یہ سن کر حیرانگی سے بولی کیوں آج لائٹ آن کر کے سونا ہے جس پر حسن بولا نہیں باجی آپ ادھر آ کر بیٹھو آپ سے کچھ بات کرنی ہے جس پر نادیہ حسن کے ساتھ بستر پر جا بیٹھی اور بوکی جی حسن بولو کیا بات ہے
حسن: باجی کیا ہوا آپ پریشان لگ رہی ہیں
نادیہ: ایک جالی مسکراہٹ چہرے پر پھیلاتے ہوۓ بولی نہیں نہیں پریشان نہیں ہو ںس کام سے شاید تھک گئی اس لیے
حسن یہ سن کر بولا باجی آپ نے مجھے اپنا دوست بنایا تھا شاید آپ کو یاد ہو تو پھر دوست ایسے ایک دوسرے سے باتیں نہیں چھپاتے بتاؤ کیا بات ہے آپ امی کی باتوں سے پریشان ہیں اور بھائی حمید کے گھر والوں نے انکار کیا اس لیے
نادیہ حسن کی باتیں سن کر خاموش نیچے منہ کیے بیٹھی رہی اور اس کی آنکھوں میں ہلکے آنسو بھی آ چکے تھے جسے حسن دیکھ چکا تھا حسن پہلی بار باجی نادیہ کو اتنا سیڈ اور ٹوٹا ہوا دیکھ رہا تھا ورنہ وہ تو ہمیشہ خوش رہنے والی تھی امی ابو سے زیادہ بانی نادیہ نے ہی حسن کو ہمیشہ دلاسا دیا اور اس کا خیال رکھا
حسن نادیہ۔کو روتا دیکھ اسے اپنے گلے لگا کیا اور اس جے سر پر چومتے بولا باجی کیا۔ہوا آپ تو سب سے بہادر ہو آور آج آپ اس قدر کیوں ٹوٹ گئی
نادیہ جو پہلے اپنے ساتے غم النے اندر چھپاۓ بیٹھی تھی جونہی اسے ایک ہمدر ملا اسے رہا نہ گیا اور حسن کے گکے لگ وہ زاروقطار رونے لگی حسن اسے تسلیاں دیتا رہا حسن باجی نادیہ کو یوں روتا دیکھ اس کا بھی دک بھرا جا رہا تھا کیونکہ باجی نادیہ تو اس کا مان تھی جو ہمیشہ اسے تسلیاں دیتی تھی مگر اج وہی اس قدر ٹوٹی رو رہی تھی نادیہ کافی دیر حسن کہ سینے پر سر رکھ کر اپنے دل کابوجھ ہلکا کرتی رہی اور حسن بھی بہن کو تسلیاں دیتا رہا
جب باجی نادیہ کا حالت کچھ سنبھلی تو حسن بولا باجی اپ پریشان نہ ہوں میں آپ سے وعدہ کرتا ہوں کہ میں ہمیشہ اپ کے ساتھ ہوں ایک بھائی بن کر اور ایک اچھا دوست بن کر
کیا ہوا جو اس رشتے سے انکار ہو گیا دیکھنا اس سے اچھا رشتہ ملے گا آپ کو حسن کی یہ بات سن کر نادیہ باجی حسن کے گلے لگے بولی اور مجھے نہیں چاہیے بس وہی چاہیے تھا سور یہ بات کرتے ہی وہ ایک دم سے ڈر گئی کیونکہ۔وہ جانتی تھی کہ جیسا ان کا خاندان اور معاشرہ ہے وہاں عورت اپنے پیار کا۔اظہار نہیں کر سکتی اور وہ تو غلطی سے اپنے بھائی کے سامنے اپنے پیار کا۔اظہار کر بیٹھی تھی نادیہ ڈر گئی کہ شاید حسن اسے بدچلن اور کئی الزامات لگا کر اس کے امی ابو کو بتاۓ گا اور اس کی بے عزتی کرے گا وہ اپنی بات کو چھپانے لے لیے کچھ بولتی حسن باجی نادیہ کی بات کا مطلب سمجھ چکا تھا اور بولا کیا مطلب باجی اپ کا دل تھا بھائی حمید سے شادی تھا یہ سن کر نادیہ بلکل چپ ہو۔گئی کیونکہ وہ نا ہی ہاں کر سکتی تھی اور نا ہی ہاں اس کا راز فاش ہع چکا تھا
حسن دوبارا بولا باجی بتاؤ میں آپ کا دوست بھی ہوں سو مجھے اپ شیعر کر سکتی ہو
نادیہ نا چاہتے ہوۓ بھی بس ہاں میں سر ہلا دیا حسن کو باجی یہ بات بری نا لگی اس کے باقی خاندان کے مردوں سے اس کی سوچ الگ تھی اور وہیں بھاجی نادیہ سے اتنا پیار اور بڑی بہن ہونے کے ناطے اس نے اس بات کا برا نہ۔مانا اور بولا
باجی میرے بس میں ہوتا تو میں وہاں بات کرواتا مگر شاید ہماری قسمت میں نہیں تھا لیکن اپ ایسے پریشان نہ ہو دیکھنا آپ کو اچھا رشتہ ملے گا
اب نادیہ حسن پر کافی اعتبار کر چکی تھی اور سمجھ گئی تھی کہ حسن باقی بھائیوں کے جیسے گندی سوچ کا مالک نہیں جو خود جو۔بھی کریں بس مردانگی اوت عزت کے نام۔پہ بہنوں پر۔ہی حکم چلاتے ہیں سو نادیہ اب دل کی باتیں بولنے لگی
نہیں آۓ گا کوئی رشتہ میں جانتی ہوں مجھ جیسی عمر میں بڑی میں موٹی لڑکی کو کوئی اپنی بہو نہیں بناۓ گا اور نا کوئی اپنی بیوی
حسن کو نادیہ کی یہ ںات بری لگی اور وہ بولا باجی آپ ایسا کیوص سوچ رہی آپ۔جیسی۔پیاری کوئی نہیں ہو سکتی مجھ پر۔یقین نہیں آپ کو آپ۔سے زیادہ پیاری۔لڑکی میں نے کہیں نہیں دیکھی آپ نے ہمیشہ میرا خیال رکھا آپ جسی خیال رکھنص والی پیار کرنے والی اور احساس کرنے والی لڑکی قسمت والوں کو ملتی ہے اور آپ میری باجی ہو سو بس میری بن کے رہو اور آپ موٹی نہیں ہو آپ جیسا خوبصورت جسم تو کسی کا نہیں ہو سکتا آپ کو دیکھ کر تو آنکھیں بھی ٹھنڈک محسوس کرتی ہیں اور دل بھی خوش ہوتا ہے یہ باتیں کرتے کرتے اچانک حسن کے دماغ میں اس دن والا واقع ا گیا جب اس نے باجی کے ممے اور ہلتی مچلتی گانڈ دیکھی تھی اور جس کو حسن نے اپنے دل اور دماغ میں کہیں اس وجہ سے دفن کر دیا تھا کہ نادیہ اس کی سگی بہن ہے اور ایک شیطانی وار میں وہ بہک گیا تھا مگر وہ سب اس کے دماغ کے کسی کونے میں نقش تھے جو آج ایک ںار پھر صاف ظاہر ہونے لگے تھےاور
حسن بنا سوچے سمجھے اپنے جزبات پر قابو کیسے بغیر بولا باجی آپ کا جسم کا ایک ایک حصہ اس قدر پیارااور دلکش ہے کہ جو بھی دیکھ لے پاگل ہو جاۓ وہ انسان کو خوشنصیب ہو گا جس کو اپ جیسی پیاری اور خوبصورت جسم کی ملکہ۔ملے گی حسن ان سب نظاروں کو سوچ کر نا جانے کیا کچھ بول گیا تھا اور جب اسے ہوش آیا تو وہ پشیمان ہو گیا کیونکہ آچانک اس کہ منہ سے بہن کے جسم کے بارے یہ سب نکل گیا جو کہ ظاہر ہے ایک بھائی کا اپنی بہن کے جسم کے بارے کہنا عجیب تھا خاص پور پر اس معاشرے اور خاندان میں جہاں لڑکی تو کیا لڑکے کی بھی پسند اور پیار کو غلط سمجھا جاتا تھا وہاں ایک بھائی بہن کے جسم کے بارے اتنا کچھ بول گیا نادیہ حسن کے سینے پر سر رکھے یہ سب سن کر چونک سی گئی اور اسے حیرانگی بھی کوئی کہ حسن اتنا کچھ بول گیا مگر حسن کا وہ سب نادیہ کو کافی اچھا لگا تھا وہ یہ بھول کر کہ حسن اس کا سگا بھائی ہے اور اس کا نادیہ کے جسم کے بارے یہ سب بولنا غلط ہے مگر وہ اس بات سے زیادہ اس بات پر فوکس کر رہی تھی کہ کسی مرد نے اس کو پیارا کہا ہے اس کا جسم بھی ویسا ہے جوپیارا ہے اور کسی مرد کو خوشی دے سکتا ہے وہے جو خود کو باقی تمام لڑکیوں سے مقابلے بدصورت اور ایک بوجھ سمجھ رہی تھی حسن کی ان باتوں سے اسے کافی تسلی ہوئی جیسے کوئی ہے اس دنیا میں جو اس بوجھ کو اپنی ملکہ اور رانی بول رہا ہے کوئی ہے جو اس کی بڑی عمر ہونے اس کا موٹا جسم ہونے کے باوجود بھی اسے خوبصورت کہہ رہا ہے وہیں حسن ان باتوں کو کرنے کے بعد پریشان اور گنہگار محسوس کر رہا تھا اور نادیہ باجی سے بھی ڈر رہا تھا کہ ابھی وہ اس سے اس بات پر ڈانٹیں گی کیونکہ نادیہ غصہ کی بھی بہت تیز تھی اور جہاں باجی نادیہ نے حسن کو ایک بڑی باجی اور ماں کی طرح پالا تھا وہیں غلطی پر حسن کو ڈانتی بھی تھی مگر نادیہ حسن اور اپنے بیچ رشتے کو بھولے بس اپنی تعریف پر خوش ہو رہی تھی جو پہلی بار اس کی کسی نے کی تھی
حسن کچھ اور بولتا یا کرتا حسن نے معافی مانگ کینے میں ہی بھلائی سمجھی اور کچھ کہتا اس سے پہلے نادیہ جو اس کے سینے پر ابھی تک سر رکھے آنکھیں بند کیے پڑی تھی بولی
مگر حسن میں تو تمھاری بہن ہوں تم کو کہو کہ اچھی ہوں یہ ہوں وہ ہوں مگر لوگوں کا کیا ان کو تو ایک بڑی عمر کی موٹی اود بدصورت ہی لگوں گی
حسن باجی کی یہ بات سن کر بولا نہیں باجی آپ غلط سوچ رہی ہیں میں قسم کھا کہ کہتا ہوں کہ آپ بدصورت نہیں ہیں اور اپ جیسی اچھی کوئی لڑکی نہیں ہو سکتی آپ کا نورانی چہرا تو کسی حور کی مانند ہے میں آپ کا بھائی نا بھی ہوتا تو یہی کہتا اور اپ سے شادی کرتا ۔۔۔ حسن یہ بات بول کر پھر اچانک سے رک گیا اور پھر سوچنے لگا کہ وہ دوسری بار پھر غلط بات بول بیٹھا ہے وہیں نادیہ کو حسن کی یہ باتیں اتنا سکون دے رہی تھی اپنی تعریفیں اور اچھائی نادیہ کو صدیوں بعد کسی کہ منہ سے سننے کو مل رہی تھی نادیہ اس بات پر بلکل دیھان نہیں دے رہی تھی کہ حسن ساتھ میں وہ سب بھی بول رہا ہے جو ایک بہن کے لیے بھائی کا بولنا غلط ہے اسے تو بس حسن کی ان باتوں اور اب حسن بہت پیارا لگ رہا تھا کہ کم از کم کوئی تو ہے جو اس کو بوجھ یا بدصورت نہیں سمجھتا اور خاص طور پر وہ شخص جس کو ان نے ہمیشہ مان اور پیار دیا کم ازکم وہ سخص تو اسے اس قابل سمجھتا ہے حسن اب چپ بیٹھا تھا اور کچھ نہیں بولنا چاہتا تھا کہ شاید باجی کو حسن کی وہ سب باتیں بری لگی اور اب باجی اس کی عزت رکھتے ہوۓ کچھ بول نہیں رہی تبھی نادیہ بولی حسن کیا ہمیشہ تمھارے دل میں میرے لیے پیار اور ایسے ہی عزت رہے گی جس کو سن کر حسن فوراً بولا جی باجی میری آخری سانس میرے دل میں آپ کا پیار اور عزت رہے گی کیونکہ آپ میری بڑی باجی ہونے کے ساتھ ساتھ میری ماں اور ایک اچھی دوست بھی ہو یہ سن کر نادیہ بولی وعدہ یہ دوستی ہمیشہ رہے گی جس پر حسن نے باجی نادیہ کے سر پر چومتے ہوئے بولا پکا وعدہ پر اس شرط پہ کہ اب اپ مجھ سے اپنی باتیں چھپاؤ گی نہیں جس پر نادیہ نے مسکراتے ہوۓ کہا ٹھیک ہے دوست۔۔۔
ان سب باتوں سے نادیہ کو کافی سکون ملا مانو جیسے ساری ٹینشن اور تکلیف دور ہو گئی ہو
نادیہ باجی حسن کے سینے پر سر رکھے کچھ دیر پڑی رہی نادیہ باجی کا صرف سر حسن کے سینے پر تھا باقی جسم سائیڈ پر تھا کچھ دیر دونو یونہی چپ رہے اور پھر حسن بولا اب باجی آپ سو جاؤ سردی ہے ویسے بھی آپ باہر بیٹھی ہیں بستر سے جس پر نادیہ مسکرائی اور تھینک یو میرے پیارے بھائی بول کر حسن کے ماتھے پر جوما اور جا لائٹ بند کر کے اپنے بستر میں سو گئی
حسن کافی دیر یہ سوچتا رہا کہ آخر اس نے جو سب باتیں بولی اس پر باجی نادیہ نے اسے ڈانٹا کیوں نہیں اور وہ یہ سب بول کیسے گیا وہیں آج پھر اسے بار بار باجی نادیہ کا وہ جسم یاد ا رہا تھا ان کہ بھرے گول مٹول ممے اور ہلتی گانڈ جو حسن کو پاگل کر گئی تھی اور حسن نے مشکل سے اس سب کو بھلایا تھا مگر آج پھر وہ سب اسے بار بار یاد آ رہا تھا اور باجی نادیہنپر ایک عجیب سا پیار بھی
نادیہ بھی بستر میں گھسے حسن کے بارے سوچ رہی تھی کیونکہ اس سے پہلے کبھی بھی اس کو کسی نے اتنا خوبصوت نہیں بولا تھا اور وہ بھی حسن جو پچھلے کچھ دن سے اسے صحیح سے بات بھی نہیں کر رہا تھا اور باجی نادیہ یہ سمجھ دہی تھی کہ شاید امی اںو کہ جیسے حسن بھی اسے بوجھ نہ سمجھ دہا ہو
0 تبصرے