نادیہ باجی اب کافی خوش اور ہلکا محسوس کر رہی تھی اب وہ حمید کو بھی بھول چکی تھی اور یہ سوچ کر کہ اس کی شادی کہیں اور ہو رہی اسے اتنا دکھ نہیں پر رہا تھا جتنا وہ پہلے تھی یہ سب سوچتے دونو بہن بھائی سو گئے
اگلی صبح نادیہ جس کا روز کا معمول تھا صبح نماز کے ٹائم اٹھ جانا اور کھنا وغیرہ پکا کر ابو کر کھیتوں میں بھیجنا اور پھر حسن کو اٹھا کر اسے سکول بھیجنا نادیہ جونہی کھلی وہ بہت پر سکون اور اچھا محسوس کر رہی تھی یہ صبح بھی ہر صبح کے جیسے تھی مگر رات حسن کی باتیں نادیہ کہ دل میں گھر کر چکی تھیں اور وہ بہت خوش تھی نادیہ اٹھی نماز پڑھی اور ناشتہ بنا کر ابو کو دیا جو۔پھر کھیتوں میں چلے گئے آج اتوار تھی اس لیے حسن اتوار والے دن لیٹ اٹھتا تھا تو نادیہ اسے جگانے نا آئی مگر پتا نہیں کیوں آج نادیہ کو حسن کے جلدی اٹھنے کی چاہت تھی وہ حسن کے ساتھ پھر سے باتیں کرنا چاہتی تھی اس کا شکریہ ادا کرنا چاہتی تھی کہ اس نے اس بے جان میں پھر جان بھری اس لیے وہ بار بار رام میں کسی نا کسی چیز کے بہانے جاتی کہ شاید حسن اٹھ جاۓ مگر حسن تو سویا رہا کئی بار نادیہ شیشے کہ سامنے کھڑے ہو کر خود کو گھورتی بھی رہی اسے اب اپنا آپ اچھا لگنے لگا تھا ٹائم گزرا تقریبا صبح 9:30 حسن کی آنکھ کھلی حسن اٹھا اور باہر چلا گیا جہاں اس کی امی صحن میں چارپائی بچھائے دھوپ میں بیٹھی اس کی خالہ سے کال پر باتیں کر رہی تھی اور نادیہ گھر کے صحن میں جھاڑو لگا رہی تھی حسن بھی امی جان کے پاس جا کر بیٹھ گیا امی نے حسن کو بنا۔کچھ بوکے ماتھے پر چوما اور پھر فون پر خالہ سے باتوں پر لگ گئی وہیں نادیہ نے جب حسن کو دیکھا تو حسن کے قریب ائی اور بولی
اٹھ گئے شہزادےجس کو سن کر حسن آنکھیں ملتا ہوا بولا کی باجی اٹھ گیا
نادیہ حسن کا یہ جواب سن کر ہنستے بولے لگتا تو نہیں ہے اچھا اب منہ ہاتھ دھو آؤ میں ناشتہ لے آتی ہوں
حسن: نہیں باجی بس چاۓ بنا دو وہی پیوں گا
حسن اتوار والے دن صرف صبح چاۓ پیتا تھا کیونکہ جب وہ اٹھتا تھا تب دوپہر کے کھانے کا ٹائم قریب ہوتا تھا
نادیہ کچن میں چاۓ بنانے چل پڑی جونہی نادیہ چلی حسن کی نظر پھر سے نادیہ کی ہلتی گانڈ پر چلی گئی جسے دیکھ کر حسن کی نید اڑ گئی نادیہ اس بار قدرے تیز چلتے جا رہے تھی یہی وجہ تھی کہ اس کی گانڈ کی تھرتھراہٹ اور دونو گانڈ کی حصوں کا مچلنا اور ہلنا کافی تیز تھا گانڈ کافی بڑی اور گول مڈول اوپر کو چڑھی ہوئی تھی پیچھے کو نکلی ہوئی ایک خوبصورت انداز میں اففف حسن کی تو جان نکل کر گلے میں آ اٹکی تھی تب تک باجی کچن میں جا چکی تھی تبھی حسن ہوش میں ایا اور اٹھ کر باتھروم میں چلا گیا حسن کو خود پر کافی غصہ تھا اس کا ضمیر اس کو بار بار ملامت کر رہا تھا کہ وہ جس کو اس گندی نظر سے دیکھ رہا وہ اس کی سگی بہن ہے مگر حسن اس بات کو بھی نہیں جھٹلا پا رہا تھا کہ اج تک اس نے گانڈ بھی مروائی گانڈ بھی ماری کئی ایک لڑکیوں کو دیکھا اور مٹھ بھی ماری مگر اتنا مزہ اور سکون نہیں آیا جتنا باجی کو دیکھ کر اسے آ رہا تھا حسن اب خود پر قابو کھو رہا تھا اور اب وہ اسے روکنا بھی نہیں چاہتا تھا نہ کانے کیو اسے ایک عجیب سی لذت اور محبت ہو رہی تھی نادیہ سے وہیں نادیہ ابھی تک حسن کے ساتھ ایسا کچھ بھی نہیں سوچ رہی تھی وہ صرف ایک بھائی واکے پیار سے حسن کو دیکھتی تھی اور حسن پر اس لیے خوش تھی کہ وہ واحد شخص تھا جس نے اسے اچھا سمجھا اور پیار دیا وہ اس بات سے ابھی تک انجان تھی کہ حسن اس کے جسم کے بارے میں بھی غلط سوچ رہا
حسن منہ ہاتھ دھو کر پھر سے امی کے پاس آ بیٹھا جو ابھی تک خالہ سے باتوں میں لگی ہوئی تھی حسن کی امی کا یہ روز کا تھا وہ سارا دن اپنی بہنوں سے کال پر باتیں کرتی اور خاندان کی نئی نئی باتیں ایک دوسرے کو سناتی تھیں حسن کچھ دیر ہی بیٹھا کہ اتنے میں نادیہ بھی چاۓ لے کر ا گئی اور حسن کو چاۓ پکڑاتے ہوئے امی کو بولی امی بس کرو سارا دن پتا نہیں کیا کیا باتیں کرتی رہتی سبزی صاف کرو میں جھاڑو لگا لوں پھر پکا دوں گی اور یہ کہتے وہ پھر سے صحن میں جھاڑو لگانے لگے حسن اب پھر باجی کو دیکھنے لگا نادیہ ہلکا جھکے صحن میں جھاڑو لگانے میں مصروف تھی نادیہ کے گھر کا ماحول تھوڑا مذہبی قسم کا تھا تو تنگ کپڑے اور بنا ڈوبٹے کہ گھومنا غلط سمجھا جاتا تھا خاص طور پر بھائی اور باپ کی موجودگی میں اسی لیے نادیہ نے سر اور سینے کو ڈوبٹے سے ڈھانپ رکھا تھا مگر اس کے 36 کے موٹے ممے اس ڈوبتے سے بھی اپنا ابہار صاف دیکھا رہے تھے اور اپنی خوبصورتی اور گولائی کا لوہا منوا رہے تھے وہیں اس کی تھرکتی مچلتی باہر کو نکلی موٹی گانڈ تو حسن کی جان نکال رہی تھی زینب کی شلوار تنگ نہ تھی مگر پھر بھی جسم میں تھوڑی موٹی اور خاص طور پر اس قیامت ڈھاتی گانڈ کو سمبھال پانا شلوار کے کیے خاصا مشکل تھا اور وہ اپنا حسن صاف ظاہر کر دہی تھی حسن بھوکی نظروں سے جی بھر کے باجی نادیہ کو دی گھورے جا رہا تھا یہ پہلی بار تھا جب حسن کا ضمیر ہار چکا تھا اور بہن کے جسم کی خوبصورتی حسن کے حوشواس پر ہاوی ہو چکی تھی اب وہ بنا کسی خلل بہن کے اس بے انتہا حسن کو پاگلوں جیسے دیکھتے جا رہا تھا اور جو مزہ اور سرور اس کو اج مل رہا تھا وہ محلے کی لڑکیوں اور آنٹیوں کو دیکھ کہ بھی اس کو کبھی نا ملا تھا وہیں نادیہ اپنی دنیا میں مگن کام میں مصروف اس بات سے انجان تھی کہ اس کا سگا بھائی تو اسے اب کسی اور کی نظر سے دیکھ رہا ہے نادیہ کے دماغ میں حسن کے بارے ابھی تک ایسا کچھ بھی نہیں تھا جو حسن سوچ رہا تھا نادیہ ابھی بھی حسن کو ایک چھوٹے بھائی کی نظر سے دیکھتی تھی اور خوش اس بات پر تھی کہ ساری زندگی اس نے خود کو بدصورت اور بوجھ سمجھا مگر اس کا بھائی اس کو یہ سب نہیں سمجھتا
بہت دیر حسن نادیہ کو دیکھتا رہا اور اس تھوڑے سے ٹاٹم میں ہی نادیہ کا جسم حسن کو اپنا غلام بنا گیا نا جانے حسن کو کیا ہوا اور اب وہ باجی نادیہ اور کسی اور نگاہ سے دیکھنے لگا تھا باجی کے کیے پیار ایک بھائی کے پیار سے بڑھ کر کسی اور سمت چل پڑا تھا باجی نے گھر کا چھاڑو لگایا اور پھر کچن سے سبزی اٹھا کر حسن کے ساتھ پڑی چارپائی پر آ بیٹھی اور سبزی کاٹنے لگی حسن بھی اٹھ کر نادیہ باجی کے ساتھ چارپائی کی دوسرص سائیڈ سامنے بیٹھ گیا اور ساتھ میں سبڑی کٹوانے لگا
دونو باتیں بھی ساتھ ساتھ کرنے لگے نادیہ کو اب حسن سے باتیں کرنا بہت اچھا لگتا تھا حسن بار ںار نادیہ کے سینوں کے ابھاروں کو گھور رہا تھا جس ڈوبٹے میں ڈھانپنے کے باوجود بھی اپنی بناوٹ اور خوبصورتی دیکھا دہے تھے حسن کو اب نادیہ باجی کہ جسم کو دیکھنے کی لت لگ چکی تھی جتنی دیر نادیہ اور حسن بیٹھے دہے وہ باجی کہ مموں کہ ابہار اور ان کے چہرے کو گھورتا رہا نا جانے آج حسن کو نادیہ باجی کا چہرا بھی بہت پیارا لگ رہا تھا جیسے کوئی نورانی حور پری ہو جس کہ بہرے سے نور اور معصومیت ٹپک رہا ہوں نادیہ کی اواز جیسی کانوں میں کوئی سر بکھیر دہا ہوں اور اس کی ہنسی جیسے کائنات میں خوشی کی لہر آئی ہو کچھ ہی لمحات میں نادیہ حسن کو اپنا عاشق بنا گئی
سبزی کاٹ کر نادیہ کچن میں پکانے کو چلی گئی اور حسن بھی اٹھ کر کمرے میں چلا گیا پہلے حسن اتوار کو زارا دن باہر رہتا جہاں کاشف اور وہ مل کر محلے کی لڑکیاں اور آنٹیوں کر دیکھا کرتے تھے یا پھر کسی نا۔کسی کرکے کے شکار میں ہوتے جس کی وہ گانڈ مار یا مروا سکیں مگر آج کاشف کی کال پر بھی حسن نہ گیا اور نہ ہی عدنان کی کال پر حسن چپ چاپ کمرے میں جا بیٹھا اور سوچ میں ڈوب گیا
اب ایک بار پھر اس کا ضمیر اس کو سمجھانے لگا کہ نادیہ اس کی سگی بہن ہے اور بہں ہونے کے ساتھ ساتھ بچپن سے ایک ماں بن کے بھی اسے پالا اور وہ اسی کے بارے ایسے خیالات کر دہا مگر اب کافی دیر۔ہو بکی تھی نادیہ کے جسم اور اس کی خوبصورتی حسن کو اپنا دیوانہ بنا چکی تھی اور حسن اس ںہن سے پیار کے سمندر میں ڈوب چکا تھا حسن سوچنے لگا کہ آخر آج سے پہلے اس نے باجی کو۔اس نظر سے کیوں نہ دیکھا وہ لڑکیاں اور آنٹیاں جن کو وہ باہر دیکھنے جاتا تھا اس سے کئی درجے خوبصورت اور نفیس جسم اور لڑکی اس کے ہی گھر میں موجود تھی اسے کبھی وہ پہلے نظر کیوں نہ آئی حسن ان سب باتوں کو سوچ رہا تھا کہ اچانک اسے خیال آیا کہ اگر باجی کو اس سب کا پتا چلا تو وہ کیا سوچے کی وہ تو حسن کی جان نکال لیں گی اور ظاہر ہے اس معاشرے اور مذہب میں بھی ایسے کسی رشتے کی کوئی گنجائش نہیں تو اس کا پیار جس میں اب وہ ڈوب چکا ہے وہ ایک طرفہ ہو گا جس پر وہ کسی کو بتا بھی نہیں پاۓ گا حسن جانتا تھا کہ اب اسے جو باجی سے محبت اور ان کے جسم کی لت اسے لگی ہے وہ اب اسے روک نہیں پاۓ گا اور نہ کسی کو بتا پاۓ گا تو حسن نے ٹھان لی کہ وہ اس راز کو راز دکھے گا اور کبھی باجی یا کسی اور کو شک نہیں ہونے دے گا
کچھ ہی دیر بعد کھانا بن گیا حسن اور نادیہ نے اکھٹا بیٹھ کر کھایا امی کو ابھی۔ بوکھ نہیں تھی سو وہ صحن میں بیٹھی تھی
کھانا کھانے کے دوران نادیہ حسن سے کافی باتیں کر رہی تھی مگر حسن زیادہ بول نہیں رہا تھا کیونکہ وہ تھوڑا پشیمان بھی تھا اور اپنی نظریں بھی چرا دہا تھا کہ کہیں باجی کو شک نہ ہو جاۓ حسن نے کھانا کھایا اور پھر باہر نکل گیا تاکہ باہر شاید وہ باجی کے بارے ان سوچو سے بچ سگے باہر جہاں کاشف اور باقی دوستوں کے ساتھ کھومتا رہا مگر اس سب کے دوران اس کے دماغ سے باجی کا خیال نہیں جا رہا تھا اسے بار بار باجی کا جسم اور ان کا چہرا یاد آ رہا تھا
وہیں نادیہ پھر سے حسن کا زیادہ بات نا کرنا اور پریشانی سا دیکھ نادیہ الگ سوچ میں ڈوبی تھی کہ اب پھر کیا ہوا حسن کو کیونکہ نادیہ کو اب حسن کی پیار بھری اور تعریفانہ گفتگو کی عادت ہو چکی تھی وہ پھر چاہتی تھی کہ رات کے جیسے حسن اسے بتاۓ کہ وہ کتنی خوبصورت اور اچھی ہے
شام کو حسن گھر کو لوٹا حسن آج اپنے ہی دماغ میں چلتی جنگ لڑ رہا تھا جس میں ایک طرف اس کا دل آنکھیں اور دماغ باجی کہ حسن اور جسم کے ھٹنے ٹیک چکا تھا وہیں دوسری طرف اس کا ضمیر اور دماغ کا ایک حصہ اسے غلط گناہ معاشرے کے خلاف اور غیر فطری عمل بتا کر اس سے روک رہا تھا حسن سارا ٹائم خاموش تھا سب کے ساتھ کھانا کھانے کے بعد حسن ٹی وی دیکھنے کی بجاۓ روم میں آ کر اپنے بستر پر لیٹ گیا کیونکہ وہ ایک کشمکش میں تھا اسے بار بار یہ یاد آتا کہ باجی نے ہمیشہ اس کے ساتھ اچھا کیا اس کا خیال رکھا اور ان کو اس باتے پتا چلا کہ میں ان کے بارے کتنا غلط سوچتا ہوں تو اں کو کتنی تکلیف ہو گی حسن کے دماغ میں چلتی اس جنگ میں حسن پاگل ہو رہا تھا اسے کچھ سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ آخر وہ کس راتے جاۓ دونو سائیڈ وہ مجبور ہے تھوڑی ہی دیر گزری تو نادیہ بھی کمرے میں آ گئی حسن نے نادیہ کو کمرے میں آتا دیکھ آنکھیں بند کر لیں باجی نادیہ آکر حسن کے بیڈ کی ایک سائیڈ پر بیٹھ گئی نادیہ بیٹھتے ہی حسن کے بالوں میں ہاتھ ڈال کر سہلاتے کوئی بوکی حسن کیا ہوا پریشان ہو باجی کا ہاتھ بالوں میں محسوس کر حسن ایک عجیب سی سنسناہٹ اور لطف سے بھرپور احساس میں ڈوب گیا حسن نادیہ کو اگنور کرنا چاہتا تھا کیونکہ کا ضمیر ابھی بھی اسے ملامت کرنے پر لگا ہوا تھا اس لیے حسن بولا کچھ نہیں باجی پریشان نہیں ہو
نادیہ: حسن مجھ سے تو جھوٹ نہ بولو اور کل وودہ کیا تھا کہ دوست ہیں ایک دوسرے کو کر بات بتائیں گے بتاؤ بیٹا کیا ہوا نادیہ نے بہت ہی پیار سے حسن سے پوچھا نادیہ پہلی بھی کئی بار حسن کو بیٹا بھی کہتی رہتی تھی جس کی وجہ عمر میں 10 سال چھوٹا ہونا اور حسن کو بچپن سے نادیہ کا پالنا تھا
حسن کو نادیہ کا یہ انداز اور پیار کافی اچھا لگا اور اسے شرمندگی بھی ہوئی کہ ایک ماں سمان بڑی بہن جو اسے اپنا بھائی اور پیارا سمجھتی ہے وہ اس جے بارے کیا کچھ سوچ رہا وہ نادیہ کو کیا بتاتا کہ اس کا چھوٹا بھائی اپنی ہی بڑی باجی کے جسم کا دیوانا ہو چکا ہے اس لیے جھوٹ بول دیا کہ باجی سردرد تھا اس لیے
نادیہ بھی حسن سے واقف تھی اور بچپن سے حسن کو جانتی تھی وہ سمجھ گئی کہ حسن کچھ چھپا رہا اور بتا نہیں رہا مگر اس نے اصرار نہ کیا اور بولی اچھا تم رکو میں کچن وغیرہ بند کر آؤں پھر تمھارے سر لر تیل کی مالش کر دیتی ہوں ٹھیک ہو جاۓ گا
حسن یہ سن کر بولا نہیں باجی سو گیا تو ٹھیک ہو جاۓ گا مگر باجی تب تک کمرے سے باہر جا چکی تھی
نادیہ نے جلدی سے کچن بند کیا باہر کے میںن گیٹ کو تالا لگایا اور پھر اپنے کمرے میں آ کر دروازے کو کنڈی لگا دی
اور پھر ڈریسنگ ٹیبل سے آئل کی بوتل اٹھا کر حسن کے قریب ائی
چلو اٹھ کر بیٹھ جاؤ میں تیل لگاتی دیکھنا ابھی سر درد ٹھیک ہو جاۓ گا
حسن: نہیں باجی رہنے دیں ایسے ٹھیک کو جاۓ گا
نادیہ: چلو زد نہ کرو اور پھر حسن کر باہوں سے پکر کر بیٹھا دیا اور خود حسن کے پیچھے بیٹھ کر اسے تیل لگانے لگی
حسن کو باجی کے ہاتھوں کا لمس پاگل کر رہا تھا اب نادیہ حسن سے باتیں کرنے لگی تاکہ پھر وہ حسن سے اپنی تعریفیں سن سکے
نادیہ: حسن کل سکول جانا ہے تم نے
حسن: جی باجی جانا ہے
نادیہ: پیپر کب ہیں تمھارے
حسن: باجی بس دو ہفتے بعد ہیں
نادیہ: اچھا چلو اچھے سے دینا پیپر پھر میرا بھائی بھی 12 کلاس پڑھا لکھا بن جاۓ گا
حسن اس بات کر مسکرا دیا اور بولا باجی اجکل 12 کی کوئی ویلیو نہیں ہے لوگ 16 تک بھی پڑھے لکھے کھوم رہے
نادیہ: مجھے لوگوں سے کیا مجھے تو اپنے بھائی سے ہے میرا بھائی 12 پڑھ جاۓ گا اور پھر آگے بھی پڑھنا ایک دن 16 بھی پڑھ جاؤ گے دیکھنا اور پھر ایک بڑے افسر بن جاؤ گے
حسن نادیہ کی یہ بات سن کر ہنستے بولا آمین
نادیہ: لیکن ایسا نہ ہو بڑا افسر بن کر مجھے بھول جاؤ اور کہو یہ کونسی ان بڑھ جاہل ہے اور ہنستے لگی
حسن یہ بات سن کر دل ہی دل میں بولا کہ باجی میرا بس چلے تو آپ کو ساری زندگی اپنی پلکوں پر بیٹھاۓ رکھوں اور پوری دنیا سے چھپا کر اپنے پاس رکھ لوں
نادیہ: چپ ہو گئے لگتا ہے ایسا ہی۔کرو گے
حسن: نہیں نہیں باجی میں چاہے افسر بن جاؤں یا کچھ بھی آپ سے ہمیشہ پیار کروں گا اور عزت بھی آپ تو میری سب سے پیاری باجی ہو
نادیہ یہ ںات سن کر مسکراتے بولی کیا پتا تمھاری بیوی ر بولے کہ اس جاہل کو نکالو گھر سے پھر کیا کرو گے
حسن یہ سن کر بولا میں اسے ہی گھر سے نکال دوں گا اگر اس نے میری باجی کے بارے ایسا بولا تو
نادیہ: ہاہاہا پاگل بیوی کو نکال دیا تو کھانا کون بنا کے دے گی
حسن : آپ بنا دینا باجی
نادیہ : اور کپڑے بھی مجھے ہی دھونے پڑے گے کیا
حسن: ظاہر ہے باجی جب بیوی چلی گئی تو سب کام آپ کو ہی پھر کرنے ہوں گے پھر میری بیوی آپ بن جانا یہ بول کر حسن ڈر سا گیا کہ اس کہ منہ سے کیا نکل گیا
نادیہ ہنستے ہوۓ بولی پاگل انسان میں بہن ہوں بیوی نہیں یہ سن کر حسن پھر اپنے جذبات پر قابو نہ رکھ سکا اور بولا کاش آپ ہوتی بیوی
نادیہ کو حسن کی اس بات سے شک سا ہوا کہ حسن آج کچھ عجیب سی باتیں کر رہا اس سے پہلے کبھی بھی حسن یا نادیہ کے بیچ ایسی باتیں نہیں ہوئی تھی حسن بھی خود کو اندر ہی اندر کوسے جا رہا تھا کہ وہ غلطی پہ غلطی کیے جا رہا اتنے میں نادیہ بولی کہ نا بھائی مجھے تو کپڑے شپڑے نہیں دھونے اپنی بیوی کو ہی پاس رکھنا اور اسے سے دھلوانا
حسن: ہاہا باجی پھر آپ کیا کرو گی
نادیہ: میں۔۔۔ تھوڑا سوچ کر میں بھی کپڑے دھوں گی اپنے شوہر کے اور یہ بول کر ہنسنے لگی
حسن کو باجی کی یہ بات بری لگی جیسی اس کا پیار کسی اور کا ہو حسن اپنی اس سوچ اور جلن سے حیران بھی تھا اس لیے اس سے رہا نہ گیا اور بولا باجی وہ خوشنصیب کون ہو گا
نادیہ یہ سن کر تھوڑا اور ہنستے ہوۓ بولی مجھے کیا پتا پاگل جس سے شادی ہو گئی وہی ہو گا
حسن یہ سن کر سوچوں میں ڈوبا بولا کاش وہ خوشنصیب میں ہوتا نادیہ یہ سن کر ایک بار پھر سوچ میں ڈوب گئی کہ حسن آج کسی عجیب سی باتیں بول رہا حسن بھی جزبات پر بے قابو ہو کر بول دیتا تھا مگر اب ڈر رہا تھا کہ کہیں باجی کو شک نہ ہو جاۓ سو اپنی بات کی صفائی میں کچھ بولنے ہی لگا تھا کہ نادیہ بول پڑی لگتا ہے میری بھائی کا آج زیادہ سر درد کر رہا جو بنا۔سوچے پتا نہیں کیا۔بولے جا رہا اور ہنس دی
0 تبصرے